سچ خبریں: پاکستان کی پیپلز پارٹی کے بانی اور فوجی حکمرانی کے دور میں پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے 45 سال بعد، اس ملک کی سپریم کورٹ نے بھٹو کے مقدمے کو انصاف کے اصولوں اور قوانین کے منافی قرار دیا نیز ان کی پھانسی کو غیر منصفانہ قرار دیا۔
بدھ کو پاکستان کے قومی ٹیلی ویژن پر اس ملک کے سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کو انصاف اور آئین کے اصولوں کے منافی قرار دیا جنہیں 45 سال قبل ملک کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی دی گئی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ مسٹر بھٹو کو عدالت میں اپنے دفاع کا مناسب موقع نہیں دیا گیا، جج فضہ عیسیٰ نے مزید کہا کہ تمام ججز نے اپنی متفقہ رائے کا اعلان کیا ہے اور ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ عدلیہ کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:’ہماری عدالت جمہوری ہے، آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں‘، بھٹو پھانسی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں سماعت
ذوالفقار علی بھٹو جنہیں قائدِ قوم کہا جاتا ہے، کو جنرل ضیاء الحق نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے معزول کر دیا اور پھر غداری کے مقدمے میں انہیں عدالت سے سزائے موت سنائی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی ایک اور وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے والد ہیں جنہیں 2007 کے وسط میں راولپنڈی شہر میں قتل کر دیا گیا ، وہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے دادا اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کے سسر ہیں، ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے چوتھے صدر اور نویں وزیراعظم تھے،انہیں 4 اپریل 1979 کو راولپنڈی، پاکستان میں 51 سال کی عمر میں پھانسی دے دی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کو دوبارہ کھولنے کی درخواست اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی اور 13 سال کے وقفے کے بعد بالآخر سپریم کورٹ نے کیس کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عدالتی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کا عدالتی فیصلہ ایک بے گناہ سیاسی رہنما کے مقدمے میں سپریم کورٹ کی اپنی غلطیوں کا اعتراف ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں ایک امیر مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیلیفورنیا اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے قانون کے شعبے میں گریجویشن کیا، اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھٹو نے پاکستان میں وکالت کے پیشے کا انتخاب کیا اور سپریم کورٹ میں کام کیا۔
انہوں نے 8 ستمبر 1951 کو کراچی میں نصرت بیگم اصفہانی سے شادی کی، اس شادی کے نتیجے میں چار بچے پیدا ہوئے جن کے نام بے نظیر، مرتضیٰ، صنم اور شاہنواز تھے۔
بے نظیر بھٹو کے والد اس کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہے اور 1957 سے پاکستان کی مختلف حکومتوں میں آٹھ سال تک عہدیدار رہے۔
بھٹو کی سیاسی ذمہ داریوں میں 1957 میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے ،1958 میں محمد ایوب خان کی حکومت میں توانائی کے وزیر اور 1960 میں بھارت کے ساتھ دریائے سندھ کے مذاکرات کے دوران اس ملک کے صدر کے مشیر تھے۔
پاکستان کے مرحوم وزیر اعظم نے 1966 میں کشمیر پر بھارت کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو قبول کرنے سے انکار کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور اگلے ہی سال انہوں نے حکومت کی مخالف جماعت پیپلز پارٹی بنائی، اس جماعت نے 1970 کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی تھی۔
مزید پڑھیں: ’ذوالفقار بھٹو کا کیس قتل کا ٹرائل نہیں بلکہ ٹرائل کا قتل تھا‘، بھٹو پھانسی ریفرنس پر سماعت
ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971 سے 13 اگست 1973 تک جمہوریہ پاکستان کے چوتھے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں لیکن اس سال جب ملک کا آئین تبدیل کیا گیا تو اصل طاقت وزیر اعظم کو سونپ دی گئی ۔
بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا انجام تلخ ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کو 1977 میں جنرل محمد ضیاء الحق کی فوجی بغاوت کے ذریعے وزیر اعظم کے طور پر معزول کر دیا گیا اور بالآخر پیپلز پارٹی کے بانی کو قتل اور غداری کے الزام میں 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔