لاہور(سچ خبریں) پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل میں افراد پر ‘مجرمانہ ذمہ داری’ کا تعین کرنے کے لیے تفتیش کا آغاز کردیا اے سی ای نے تحقیقات کا آغاز وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے حکم پر کیا جن پر مسلم لیگ (ن) نے اس اسکیم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے عدالت عظمیٰ کے جج پر مشتمل عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق اس اسکینڈل میں 2 تفتیشی اداروں کا غیر معمولی رابطہ نظر آتا ہے ایک قومی احتساب بیورو (نیب) اور دوسرا صوبائی محکمہ انسداد بدعنوانی ہے، نیب نے گزشتہ ہفتے اس معاملے کی تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔
ایک عہدیدار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘یہ شاذ و نادر ہوتا ہے کہ دو ادارے ایک ہی وقت میں ایک ہی معاملے کی تحقیقات کریں’۔
انہوں نے کہا کہ عمومی طور پر نیب اعلیٰ تحقیقاتی ادارے کی حیثیت سے کسی دوسرے ادارے مثلاً اے سی ای سے تفتیش لے سکتا ہے اور ایسا ماضی میں ہوا ہے’۔
رنگ روڈ اسکینڈل کے حوالے سے راولپنڈی کے کمشنر (گلزار شاہ) کی رپورٹ میں تجویز دی گئی تھی کہ نیب یا وفاقی تحضقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو اس معاملے کی تفتیش کرنی چاہیے۔
عہدیدار نے کہا کہ تاہم وزیراعظم عمران خاں کی ہدایت پر عثمان بزدار نے صورتحال کی بہتر منظر کشی کے لیے یہ ذمہ داری اے سی ای کو دی ساتھ ہی دیگر کسیز کا حوالہ دیا جن میں نیب اور ایف آئی اے نے علیحدہ علیحدہ تفتیش کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ چینی اور میڈیکل کالج اسکینڈل میں ایف آئی اے اور نیب نے علیحدہ علیحدہ تفتیش کی تھی۔
دوسری جانب اے سی ای کے ترجمان نے بتایا کہ ‘محکمے نے وزیراعلیٰ کی ہدایات پر راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ اے سی ای کے ڈائریکٹر جرنل گوہر نفیس نے باریک بینی سے تفتیش کے لیے قانونی، مالی، تکنیکی ماہرین پر مشتمل ایک انکوائری ٹیم تشکیل دے دی ہے۔
ایک سینیئر عہدیدار کے مطابق حکومت نے اس اسکینڈل میں ‘مجرمانہ ذمہ داری’ کے تعین کے لیے اے سی ای کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اے سی ای کمشنر راولپنڈی کی رپورٹ کی روشنی میں مستفید ہونے والے سرکاری عہدیداروں اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے معاملات دیکھے گی۔
کمشنر کی رپورٹ میں کچھ نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے نام دیے گئے تھے جو رنگ روڈ کے اصل پلان سے بہت دور تھیں لیکن ری الائنمنٹ سے انہیں فائدہ پہنچایا گیا۔
رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ سابق کمشنر کیپٹن (ر) محمود اور معطل ہونے والے لینڈ ایکوزیشن کمشنر وسیم تابش نے سڑک کے لیے زمین کے حصول کی غرض سے غلط طریقہ کار سے 2 ارب 30 کروڑ کا معاوضہ ادا کیا اور اراضی حاصل کرتے ہوئے سنگ جانی کے معروف خاندان کو فائدہ پہنچایا۔
مذکورہ تنازع منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی ذوالفقار عباس بخاری المعروف زلفی بخاری نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تاہم وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو فائدہ پہنچانے کے تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے کرپشن کا الزام ثابت ہونے کی صورت میں سیاست چھوڑ دینے کی پیشکش کی تھی۔