?️
کراچی: (سچ خبریں) چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ، ان کے پاس اتنی اکثریت نہیں وہ یکطرفہ اور متنازع فیصلے کریں۔
لاڑکانہ کے علاقے رتوڈیرو میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عوام کے مسائل حل کرنا اولین ترجیح ہے، ہمارے ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسائل جتنے بھی ہوں، کم مسائل میں بھی محنت کر کے اپنے عوام کے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ افسوس کے ساتھ اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ چھوٹے صوبے ہیں، چاہے ہم حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، وفاق کا رویہ کچھ ایسا ہی رہتا ہے، جہاں تک پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان معاہدہ ہوا، ہم نے حکومت سازی میں اس حد تک ساتھ دیا کہ وزیراعظم کو ووٹ دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ یہ طے کیا تھا کہ نہ صرف صوبوں کو ان کا حق ملنا چاہیے، مزید کہا کہ ہم سے وعدہ کیا گیا کہ سندھ، بلوچستان اور وفاق کی سطح پر ترقیاتی منصوبوں پاکستان پیپلزپارٹی کی ان پٹ بھی لے جائے گی اور ان کو فنڈنگ بھی دی جائے گی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر ایک وعدہ کیا گیا، اس پر صحیح طریقے سے عملدرآمد نہیں ہورہا، مگر جس طریقے سے وفاق کو صوبوں کے ساتھ مل کر چلنا چاہیے، اور تمام صوبوں کو ان کا حق دینا چاہیے، اس حوالے سے حکومت میں بہتری کی گنجائش ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ ہماری شکایت کو سنجیدہ لیا جائے گا اور معنی خیز ڈائیلاگ کے نتیجے میں ہم جو صوبے کے اعتراضات ہیں، ان کو بھی دور کرسکتے ہیں اور جو سیاسی وعدے کیے گئے ہیں، اس پر بھی عملدرآمد کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک مینڈیٹ کا معاملہ ہے، وہ تو پارلیمانی نظام میں آپ کے سامنے ہے، حکومت کا جو طریقہ کار ہے، چاہے وہ پالیسی بنانا ہو، یا وہ قانون سازی کا عمل ہو، ان کے خیال میں شاید ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہے، اور ان کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمان میں ان کی پوزیشن ایسی نہیں ہے، جو 90 کی دہائی میں ان کے پاس دو تہائی اکثریت تھی، اس وقت ان کے پاس باقی سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اجتماعی فیصلے کرنے کا مینڈیٹ تو ہے، یکطرفہ فیصلہ کرنا اور بھی ایسا یکطرفہ فیصلہ کرنا، جو متنازع ہو، جو پانی کے بنیادی حق پر ہو، جو 1991 کے ارسا کے معاہدے کی خلاف ورزی ہو۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے صوبوں کے اختلافات اس اجلاس میں بھی اٹھائے جائیں، ان کے اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے آپ کسی منصوبے پر آگے بڑھتے جائیں گے تو اس کے لیے تو بالکل ان کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، اسی طریقے سے منصوبے متنازع ہوتے ہیں۔
چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ مل بیٹھ کر بات چیت کرکے سب کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے بعد اگر کوئی منصوبہ بنایا جائے گا تو وہ کامیاب ہو گا ورنہ ایک زمانے میں کسی نے سوچا تھا کہ وہ کالاباغ ڈیم بنائے گا، آپ مجھے بتائیں کہ وہ ڈیم کہاں ہے؟ وہ بھی یکطرفہ فیصلہ تھا، یہ بھی ایک یکطرفہ فیصلہ ہے، اس زمانے کے یکطرفہ فیصلے کو ہم نے ہی ناکام کروایا، آج کی سیاسی صورتحال میں بھی یکطرفہ فیصلے ہوں گے ان پر عملدرآمد مشکل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میری ذمہ داری ہے کہ اپنے عوام کو کسی نہ کسی طریقے سے پینے کے صاف پانی کسی منصوبے کی صورت میں پہنچادوں، میں جانتا ہوں کہ این ایف سی ایوارڈ کے مطابق جائز حق ایک بار بھی نہیں ملا ہے، اس کا موازنہ کسی بھی بزنس یا اداے سے کریں کہ اگر ان پٹ پوری طریقے سے نہیں آتا تو پھر آؤٹ پر کسی نہ کسی صورت میں اثر ہوگا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے نہ صرف پاکستان بلکہ پورا ریجن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو لیڈ کیا ہے، پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) کا دور، پی ڈی ایم کا دور، آج کا جو بھی دور، ان تمام حکومتوں میں اگر ہمیں اپنا صحیح طریقے سے شیئر نہیں مل رہا تھا، تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اب کام نہیں ہوسکتا، ہم نے اپنے طریقے سے دوسرا بندوبست کیا۔
انہوں نے کہا کہ معاشی طور پر بہتری آرہی ہے، مہنگائی میں کمی آئی ہے، ہم اس کو ویلکم کرتے ہیں، اگر معاشی بہتری آرہی ہے تو ہماری جماعت کو مؤقف ہوگا کہ اس بہتری کو اب عوام کو محسوس ہونا چاہیے، وہ ان پٹ ہم حکومت کو ضرور دیں گے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ حکومت کا اپنا منصوبہ تھا کہ پاکستان کو ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانی ہے، اس کے لیے آپ کو آئی سیکٹر اور ٹیک سیکٹر سے 60 ارب ڈالر کی برآمدات چاہئیں تھیں، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج زراعت کے بعد کسی ایک شعبے میں پاکستان کی معیشت کو رسپانس دے سکتے ہیں تو یہ آئی ٹی سیکٹر، ڈیجیٹل سیکٹر، ٹیکنالوجی سیکٹر ہے، پاکستان کا ٹیکنالوجی سیکٹر تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، انٹرنیٹ کو جو آج کل انفرااسٹرکچر ہے، انہیں سمجھ نہیں آتی، ان کی سیاست موٹروے سے شروع ہو کر میٹرو پر ختم ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انٹرنیٹ کی اسپیڈ میں کمی کے بجائے اسے تیز کرنا تھا، ہم نے اسے محدود کرنے کے بجائے ان علاقوں میں پہنچانا تھا جہاں ابھی تک انٹرنیٹ نہیں پہنچا تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ کیسا حکومتی یکطرفہ فیصلہ ہے، وہ بھی ہر روز دوسرا نیا بہانہ، کبھی مانتے ہیں کہ بند کرنے جا رہے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں کیا، کبھی کہتے ہیں کہ تار کٹ جاتا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ کوئی ٹیسٹنگ ہو رہی ہے، اب مجھے بتائیں کہ پاکستان کے انٹرنیٹ کیبل میں ایسا کیا ہے کہ سمندر کی مچھلیاں صرف پاکستان کے انٹرنیٹ کیبلز کھاتے رہتے ہیں، وہ بھی جب اسلام آباد میں کوئی دھرنا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد پانی بھی پیتا ہے، سڑک بھی استعمال کرتا ہے، تو وہ باقی چیزیں بھی بند کردیں۔
مشہور خبریں۔
الاقصی طوفان آپریشن کو انجام دینے کی وجہ؛ حماس کا بیان
?️ 22 جنوری 2024سچ خبریں:فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے ایک نوٹ شائع کیا
جنوری
آل سعود کی سعودی جیلوں کی خوفناک صورتحال پر پردہ ڈالنے کی کوشش
?️ 7 جنوری 2023سچ خبریں:ایک سعودی سماجی کارکن نے آل سعود کی طرف سے سعودی
جنوری
بعلبک کے تاریخی ورثے کو صیہونی حکومت سے شدید خطرہ
?️ 9 نومبر 2024سچ خبریں:بعلبک کے گورنر نے صیہونی حکومت کے وسیع حملوں پر شدید
نومبر
بائیڈن بھیک مانگنے کے لیے خطے میں آئے ہیں: امریکی رپورٹر
?️ 13 جولائی 2022سچ خبریں: ایک صہیونی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے نیوز میکس
جولائی
عراقی پارلیمنٹ اسپیکر اور ترک وزیر خارجہ کی ملاقات میں کیا ہوا؟
?️ 24 اگست 2023سچ خبریں: ترک وزیر خارجہ نے جو بغداد کا دورہ کیا ہے،
اگست
نصراللہ شہید فلسطین ہیں، ٹرمپ اور بائیڈن میں کوئی فرق نہیں:عرب نیشنل کانگریس کے سکریٹری جنرل
?️ 7 نومبر 2024سچ خبریں:عرب نیشنل کانگریس کے سکریٹری جنرل نے مزاحمتی تحریک کے شہداء
نومبر
فرانسیسی صدر کا صیہونیوں کی حمایت کرنے کا نیا انداز
?️ 16 اپریل 2024سچ خبریں: فرانسیسی صدر نے غزہ کی پٹی میں صیہونیوں کے جرائم
اپریل
ایران اور سعودی عرب کے درمیان اچھے تعلقات اسرائیل کے لیے نقصان دہ ہیں:صیہونی تحقیقی مرکز
?️ 10 جون 2023سچ خبریں:صیہونی حکومت کے سکیورٹی اسٹڈیز سینٹر اور دایان سینٹر نے علاقائی
جون