اسلام آباد: (سچ خبریں) سینیٹ اجلاس میں سینیٹر پلوشہ خان کے بطور پریزائیڈنگ افسر تعیناتی پر اپوزیشن اراکین نے ایوان میں شور شرابہ کردیا جس کے باعث پریزائیڈنگ افسر نے اجلاس پیر کی شام پانچ بجے تک ملتوی کر دیا۔
میڈیا کے مطابق سینیٹ اجلاس کی صدارت چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کی، بعد ازاں پلوشہ خان بطور پریزائیڈنگ افسر اجلاس کی صدارت کرنے لگیں تو پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹر فوزیہ ارشد نے ان کی صدارت کرنے پر اعتراض اٹھادیا، ان کا کہنا تھا کہ افسوسناک ہے کہ ڈپٹی چئیرمین ایوان میں بیٹھے ہیں اور پلوشہ خان اجلاس کی صدرات کر رہی ہیں۔
اس موقع پر پی ٹی آئی ارکان نے اس معاملے پر احتجاج شروع کردیا، سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ایوان کو مزاق نہ بنائیں، یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ڈپٹی چیئرمین ایوان میں ہوں اور پریزائیڈنگ افسر صدارت کرے۔
اس بات پر شبلی فراز اور پلوشہ خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، پلوشہ خان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی چیئرمین سیدال خان میری صدارت کی کرسی سنبھالنے کے بعد ایوان میں آئے، چیئرمین کا اختیار ہے کہ وہ کسے صدارت دے، میں اس غنڈا گردی پر نہیں آتی، غنڈا گردی نہیں چل سکتی۔
اس موقع پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ایوان سے باہر نکل گئے، ان کے جانے کے بعد سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ریکارڈنگ نکال کر دیکھ لیں کہ وہ ایوان میں تھے، انہوں نے سینیٹر پلوشہ خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ مجھ سے اونچی آواز میں بات نہ کریں، شرمناک ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے ہی ڈپٹی چیئرمین کو ایوان سے باہر بھیج دیا۔
اسی کے ساتھ پی ٹی آئی ارکان نے ایوان میں شدید احتجاج شرع کردیا۔
سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ ایوان غنڈا گردی ، دھونس دھاندلی پر نہیں چلے گا، میں آپ کی بدتمیزی کی وجہ سے یہاں سے نہیں ہلنے والی۔
بعد ازاں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی رول کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، چیئرمین کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی کو بھی پریزائیڈنگ افسر بنائے، اس پر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ڈپٹی چیئرمین کی موجودگی میں کسی اور کا اجلاس کی صدارت کرنا غلط ہے۔
بعد ازاں جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر عطا الرحمن نے ایوان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پینل چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے بعد شروع ہوتا ہے، یہ غلط ہے کہ ڈپٹی چیئرمین ہو اور کوئی اور کرسی پر بیٹھے، ڈپٹی چیئرمین کو ایوان میں صدارت کے لیے بلائیں، اگر انہیں نہیں بلایا گیا تو ہم واک آؤٹ کریں گے
اس پر پلوشہ خان نے کہا کہ میں غنڈا گردی پر کبھی نہ پہلے پیچھے ہٹی اور نہ اب ہٹوں گی، سینیٹ سیکریٹری نے بتایا کہ ایسے بدتمیز لوگ آئیں تو ان کو کیسے ہینڈل کریں۔
اس موقع پر اپویشن ارکان نے ایوان میں چور چور کے نعرے بھی لگانا شروع کردیے۔
بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر طلال چوہدری نے ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شکریہ پی ٹی آئی کا جن کو مسلم لیگ (ن)کے ڈپٹی چیئرمین سے اتنی محبت ہے، انہیں صرف گیلری سے کھیلنا ہے۔
اہوزیشن اراکین کی ہنگامہ آرائی اور شور شرابے کے باعث پریزائیڈنگ افسر نے اجلاس پیر کی شام پانچ بجے تک ملتوی کر دیا۔
قبل ازیں سینیٹ اجلاس میں سینیٹر ثمینہ ممتاز نے پاسپورٹ پر سابق شوہر کے نام کے خانے کے معاملہ پر توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ کونسا قانون ہے؟ عورت اتنی کرب سے گزرتی ہے، سابق شوہر کا نام پاسپورٹ پر شامل کرنا مضحکہ خیز ہے ، شناختی کارڈ باپ کے نام پر ہونا چاہیے نہ کہ شوہر کے، سنگاپور کے پاسپورٹ پر نہ شوہر کا نام ہوتا ہے نہ باپ کا نہ ہی سابق شوہر کا، ہم اپنے پاسپورٹ کی رینکنگ بہتر کرنے کی بجائے خواتین سے امتیازی سلوک کر رہے ہیں، سابق شوہر کا نام ڈالنا ہے تو سارے آدمی اپنی سابقہ بیوی کا نام بھی ڈال دیں۔
بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ریاض پیرزادہ نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے آرڈر میں اس تجویز کو ختم کر دیا ہے، ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ عورت کو آپشن دیا ہے باپ کا نام رکھنے کا، اگر اس معاملے پر مشاورت کرنی ہے تو اسے قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیں
بعد ازاں سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ہمیں فیملی لاز کو بھی از سر نو جائزہ لے کر اپ ڈیٹ کرنا چاہیے، کتنی فیملی اور خواتین کو ان مسائل کی وجہ سے مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، معاملے کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کریں۔
سینیٹر مولانا عطا الرحمن نے تجویز دی کہ معاملے کو کمیٹی سپرد کرکے اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لے لیں۔
خواتین سینٹررز نے مولانا عطا الرحمن کی تجویز پر اعتراض کردیا۔
اس موقع پر چئیرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ خواتین اور اقلیت میرا حلقہ ہے۔ بعد ازاں چئیرمین سینیٹ نے معاملہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔