اسلام آباد:(سچ خبریں) سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ڈی سیٹ ہونے والے عہدیدران کی درخواست پر پاکستان بار کونسل کو نوٹس جاری کردیا۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل دو رکنی خصوصی بینچ نے سپریم کورٹ بار کے ڈی سیٹ ہونے والے عہدیدران کی درخواست کی سماعت کی۔
بینچ نے کہا کہ پہلے ہمیں یہ بتایا جائے کہ کیا یہ درخواستیں قابل سماعت ہیں، یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 184(3) میں کیسے آتا ہے، ہمیں اس پر مطمئن کیا جائے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار آئین کی حکمرانی اور قانون کی پاسداری کو یقینی بناتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ ایک تنظیم ہے تو یہ کیسے عوامی مفاد سے جڑی ہے، تنظیم کو اس سے نہ جوڑیں، ہمیں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے معاملے کا پتا نہیں پہلے ہمیں حقائق بتائیں۔
عابد زبیری نے بتایا کہ سیکریٹری پاکستان بار کونسل نے شوکاز نوٹس سے قبل خطوط لکھے لیکن درخواستوں گزاروں کو سماعت کا موقع دیے بغیر ڈی سیٹ کردیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اس کی وجہ کیا بنی۔
جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں میرا ایک کیس تھا اور اسی وقت لاہور میں 24 اپریل کو اجلاس تھا، میں نے اجلاس کا وقت تبدیل کرنے کا کہا تاہم اس دن پھر سپریم کورٹ بار کے دو اجلاس ہوئے ،میرے لاہور پہنچنے سے پہلے سپریم کورٹ بار کے کچھ عہدے داروں نے اجلاس کرکے اسے ختم کردیا، میں لاہور پہنچا تو میں نے اپنا اجلاس بلا لیا، پھر یہاں سے معاملات خراب ہوئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ کیا شوکاز نوٹس سے پہلے آپ کو خط لکھا گیا تھا، عابد زبیری نے بتایا کہ جی، خط لکھا گیا اور ہم نے آگاہ کیا تھا کہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا جاسکتا، اس کے باوجود پاکستان بار کونسل نے ہمارے سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کو ڈی سیٹ کرکے فنانس سیکریٹری کو چارج دے دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پاکستان بار کونسل سے کون آیا ہے، وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہم نے پاکستان بار کونسل کو کیس کی سماعت سے متعلق آگاہ کیا لیکن کوئی بھی سماعت میں نہیں آیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ آپ ہمیں ابھی تک نہیں بتا سکے کہ یہ معاملہ براہ راست بنیادی انسانی حقوق سے کیسے جڑا ہوا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ براہ راست سپریم کورٹ کیسے آسکتے ہیں۔
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔
بینچ نے اعتراض کیا کہ آپ ہائی کورٹ کیوں نہیں گئے، کیا متعلقہ فورم ہائی کورٹ نہیں بنتی۔
شعیب شاہین نے بتایا کہ ہائی کورٹ سید اقبال گیلانی کیس کے بعد ایسے معاملات کو نہیں دیکھتی۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ یہ الیکشن کا معاملہ نہیں ہے آپ ہائی کورٹ جاسکتے ہیں۔
عابد زبیری نے کہا کہ شعیب شاہین اور پاکستان بار کونسل کا کیس دیکھیں تو واضح ہوجائے گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کہاں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ بار کے معاملات سپریم کورٹ دیکھے گی، شعیب شاہین تو پہلے ہائی کورٹ گئے تھے پھر ان کا معاملہ سپریم کورٹ آیا تھا، آپ ہم سے اصول طے کرانا چاہتے ہیں کہ آئندہ سے سپریم کورٹ بار کے معاملات سپریم کورٹ ہی دیکھے۔
جج نے مزید کہا کہ کیا پاکستان بار کونسل کو سپریم کورٹ بار کے عہدے داروں کو ڈی سیٹ کرنے کا اختیار ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ شوکاز نوٹس کون جاری کرتا ہے، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بتایا کہ پاکستان بار کونسل کی انظباطی کمیٹی جاری کرتی ہے لیکن یہاں ایگزیکٹو کمیٹی نے کیا ہے۔
عابد زبیری کا مزید کہنا تھا کہ انظباطی کمیٹی بھی شکایت کے بعد نوٹس جاری کرتی ہے یہاں تو شکایت ہی نہیں ہوئی، یہ نوٹس غیر قانونی ہے خود نوٹس میں بھی نہیں لکھا کہ کس قاعدے کے تحت جاری کیا، یہاں عہدے داروں کو ڈی سیٹ کرکے معاملہ انظباطی کمیٹی کو بھیجا گیا۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ شوکاز نوٹس کو معطل سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کو بحال کیا جائے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ابھی تو ہم نے معاملے کے قابلِ سماعت ہونے کو دیکھنا ہے کیسے ہم نوٹس معطل کرسکتے ہیں، آپ کا کیس ہے کہ پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کو ڈی سیٹ کرنے کا اختیار نہیں، ہم سوالات کے جوابات تلاش کررہے ہیں، سب سے اہم سوال ہے کہ معاملہ 184 کی شق 3 میں کیسے آتا ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ انظباطی کمیٹی میں سپریم کورٹ کا جج بیٹھتا ہے، شعیب شاہین نے بتایا کہ انظباطی کمیٹی میں جسٹس یحییٰ خان آفریدی بیٹھتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جن کو ڈی سیٹ کیا گیا انہوں نے اپنے آگے معاملات کو کسی اور کو تفویض تو نہیں کیا، ہم اسٹیٹس کو برقرار رکھتے ہیں، لیکن جو ڈی سیٹ ہوگئے ہیں وہ دوبارہ جوائن نہیں کرسکتے۔
صدر سپریم کورٹ بار نے اعتراض کیا کہ اگر آپ سٹیٹس کو برقرار رکھتے ہیں تو فنانس سیکریٹری حفظہ چوہدری کو تو پاکستان بار کونسل چارج سنبھالنے کا حکم دے چکی ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ ہم سے کیوں غیر قانونی کام کرانا چاہتے ہیں ہم پاکستان بار کونسل کا نوٹس معطل نہیں کرتے، ہم تفصیلی حکم جاری کریں گے۔
عدالت نے سیکرٹری سپریم کورٹ بار اور ایڈیشنل سیکرٹری بار کو پاکستان بار کونسل کی جانب سے ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ ہوگا تو پھر ہی اس معاملے کو دیکھیں گے۔
عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے معاملات سے متعلق حکم امتناع جاری کرتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے پاکستان بار کونسل (پاکستان بار کونسل) کی جانب سے ’مس کنڈکٹ‘ کے الزام پر اپنے سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کی برطرفی اور اظہارِ وجوہ کے نوٹس کے اجرا کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ’سنگین مس کنڈکٹ‘ اور عدالت عظمیٰ کی وکلا تنظیم پر مبینہ قبضے کی کوشش پر پاکستان بار کونسل کے چیئرمین حسن رضا پاشا سمیت اراکین کی رکنیت معطل کردی تھی۔
تنازع24 فروری کو پی بی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بنا تھا جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کے بجائے محمد احسن بھون ایسوسی ایشن کی نمائندگی کریں گے۔
اس کے بعد پاکستان بار کونسل نے 4 اپریل کو ایگزیکٹو باڈی کے فیصلے کی عدم تعمیل پر دونوں عہدیداروں کو ڈی سیٹ کر دیا تھا۔
سینئر وکیل حامد خان کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی تھی کہ پی بی سی اور اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کی جانب سے مقتدیر اختر شبیر اور ملک شکیل الرحمٰن کو ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں کی مبینہ خلاف ورزی پر جاری کیے گئے نوٹسز کو کالعدم قرار دیا جائے۔