اسلام آباد (سچ خبریں) وزیر اعظم عمران خان نے کہااگر خواتین بہت مختصر لباس پہنیں گی تو اس کا مردوں پر اثر ہوگا تا وقت یہ کہ وہ روبوٹ ہوں، میرا مطلب عمومی سمجھ کی بات ہے کہ اگر آپ کا معاشرہ ایسا ہو کہ جہاں لوگوں نے ایسی چیزیں نہ دیکھی ہوں تو اس کا ان پر اثر ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان نے امریکی اسٹریمنگ ویب سائٹ کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات سمیت افغانستان میں پاکستان کے کردار اور چین میں اویغور مسلمانوں کے ساتھ انصافی کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر بھی کھل کر بات کی تھی۔
اسی پروگرام میں جب انٹرویو کرنے والے صحافی نے وزیراعظم سے ان کے ماضی میں ریپ کو فحاشی کے ساتھ منسلک کرنے کے بیان سے متعلق سوال کیا تو اس پر انہوں نے کہا کہ ‘یہ سراسر بکواس ہے میں نے ایسا نہیں کہا کہ میں نے پردے کے تصور پر بات کی تھی پردے کا تصور یہ ہے کہ معاشرے میں فتنے سے گریز کیا جائے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان ایک مکمل مختلف معاشرہ ہے’اگر آپ معاشرے میں فتنے کو پروان چڑھائیں گے اور ان نوجوانوں کے پاس کہیں اور جانے کا راستہ نہیں ہوگا تو اس کے اثرات مرتب ہوں گے’۔
سوال پوچھا گیا کہ ‘کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خواتین جو پہنیں اس کا کوئی اثر ہوتا ہے کیا یہ فتنے کا حصہ ہے؟جس پر وزیراعظم نے کہا کہ ‘اگر خواتین بہت مختصر لباس پہنیں گی تو اس کا مردوں پر اثر ہوگا تا وقت یہ کہ وہ روبوٹ ہوں، میرا مطلب عمومی سمجھ کی بات ہے کہ اگر آپ کا معاشرہ ایسا ہو کہ جہاں لوگوں نے ایسی چیزیں نہ دیکھی ہوں تو اس کا ان پر اثر ہوگا۔
جب صحافی نے بحیثیت بین الاقوامی کرکٹ اسٹار کے ان کا ماضی یاد دلایا تو وزیراعظم نے کہا کہ ‘یہ میرے بارے میں نہیں میرے معاشرے کے بارے میں ہے، میری ترجیح یہ ہے کہ میرے معاشرے کا رویہ کیا ہے اس لیے جب ہم دیکھیں گے کہ جنسی جرائم بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں تو ہم بیٹھیں گے اور اسے روکنے کے بارے میں بات چیت کریں گے، اس کا میرے معاشرے پر اثر پڑ رہاہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے مذکورہ جواب پر انہیں سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور معروف صحافیوں سمیت سیاستدان اور سماجی رہنما بھی ان پر تنقید کرتے دکھائی دیے۔وزیر اعظم کے مذکورہ انٹرویو کے بعد ٹوئٹر ’ایکسیوز آن ایچ بی او‘ کا ٹرینڈ بھی ٹاپ پر آگیا۔
وزیر اعظم کے بیان پر سینیئر صحافی مشرف زیدی نے ان کا نام لیے بغیر ٹوئٹ کی کہ یہ ایک عام مسئلہ ہے، جسے سمجھنے کے لیے فیمنسٹ ہونے یا صنفی تعلیمات میں پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
انہوں نے لکھا کہ یہ کیسی عقلی دلیل ہے کہ ریپ ملزمان کو مذکورہ عمل کرنے کے لیے ماحول فراہم کیا جاتا ہے؟انہوں نے لکھا کہ ایسا کہنا ریپ ملزمان کو ان کے عمل سے بری کرنے کے ارادوں کو ظاہر کرتا ہے۔
ٹی وی میزبان غریدہ فاروقی نے بھی وزیر اعظم کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے انہیں مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ خواتین کا لباس ’ریپ، تشدد، استحصال اور ایسے کسی دوسرے جرائم کا سبب نہیں ہے‘۔
انہوں نے لکھا کہ یہ بیان مرد حضرات اور ریپ ملزمان کو عصمت دری کرنے کا جواز پیش کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ متاثرین پر الزام کو ظاہر کرتا ہے۔
صحافی ریما عمر نے بھی وزیر اعظم کے بیان کی مذمت کی اور اسے افسوس ناک بھی قرار دیا۔انہوں لکھا کہ وزیر اعظم کی جانب سے جنسی تشدد کرنے والے افراد کے بجائے متاثرین پر الزام لگانے کا بیان سن کر افسوس ہوا۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس سے قبل بھی ریپ واقعات سے متعلق متنازع گفتگو کی تھی جس پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑگا تھا۔
انہوں نے رواں سال 4 اپریل کو ٹیلی فون پر براہ راست عوام کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ملک میں بڑھتے ریپ واقعات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عریانیت یا خواتین کے بولڈ لباس کو ’ریپ‘ واقعات سے جوڑا تھا۔
عمران خان نے واضح طور پر یہ نہیں کہا تھا کہ خواتین کا بولڈ لباس ہی ریپ کا سبب بنتا ہے تاہم انہوں نے بے پردگی اور فحاشی کو ایسے واقعات سے منسلک کیا تھا۔