اسلام آباد:(سچ خبریں) سپریم کورٹ کے ایک موجودہ جج کے خلاف ان کے مبینہ مس کنڈکٹ پر ایک اور شکایت سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں دائر کی گئی جس میں انہیں شوکاز نوٹس جاری کرنے اور کارروائی کے دوران اگر ان کی جانب سے ملنے والا جواب غیر تسلی بخش لگا تو اس کی رپورٹ صدر کو دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کردہ یہ چوتھی شکایت ہے جس میں جسٹس سید مظاہر علی نقوی کے خلاف ایس جے سی پروسیجر آف انکوائری، 2005 کے رول 9 کے تحت مکمل انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
حالیہ درخواست ایڈووکیٹ غلام مرتضیٰ خان نے جمع کرائی جبکہ گزشتہ شکایات پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، مسلم لیگ (ن) لائرز فورم، لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل اور سوشل میڈیا انفلوئنسر ایڈووکیٹ میاں داؤد نے دائر کی تھیں۔
اس وقت 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل، چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان پر مشتمل ہے جبکہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار عشرت علی اس کے سیکریٹری ہیں۔
تازہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جج کا طرز عمل جج بننے کے لیے نامناسب تھا اور وہ آئین کے آرٹیکل 209(5)(بی)اورایس جے سی انکوائری پروسیجر کے رول 3 کے تحت مبینہ طور پر مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
شکایت میں مزید کہا گیا کہ نیز جج کا طرز عمل آرٹیکل 209(8) کے تحت جاری کردہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کے ضابطہ اخلاق کے آرٹیکل III، VI، اور VIII کی خلاف ورزی تھا۔
شکایت کے مطابق سپریم کورٹ کے جج اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان مبینہ گفتگو کے کئی آڈیو کلپس ان کے گہرے اور قریبی تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں۔
شکایت میں الزام لگایا گیا کہ ایک ایسی ہی گفتگو کے وقت اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری محمد خان بھٹی جج کی رہائش گاہ پر موجود تھے جنہوں نے واضح طور پر وضاحت کی کہ جج نے مبینہ طور پر سابق وزیر اعلیٰ اور ان کے پرنسپل سیکریٹری سے فوائد حاصل کیے تھے اور بدلے میں ان کے قریبی لوگوں کے مقدمات کے نتائج کو متاثر کیا۔
شکایت میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ جج اپنے بیٹوں کے لیے سازگار فیصلوں کے حصول میں مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے سیکریٹری پر اثر ڈال کر کرکے مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے۔
شکایت میں مزید الزام لگایا گیا کہ جج نے اپنے بیٹوں کو ایف بی آر، این ایچ اے اور دیگر اداروں کے پینل میں شامل کروا کر اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا۔
شکایت گزار کا کہنا تھا کہ جج کے بیٹوں کی ایک قانونی فرم نے متروکہ وقت املاک کی 2 ہزار11 مربع فٹ جگہ پر قبضہ کر کے اپنا دفتر قائم کیا جس کے لیے ابتدا میں جج نے متروکہ وقف املاک کے متفقہ کرایے پر بیٹوں کے دفتر کے لیے یہ جگہ حاصل کرنے کی غرض سے اپنے اثر رسوخ کو استعمال کیا لیکن بعد میں کرایہ کو نمایاں طور پر کم کر کے 9 روپے فی مربع فٹ کر دیا گیا اور جج کے بیٹے مال روڈ لاہور پر واقع اس اہم جائیداد کے لیے ماہانہ 18 ہزار 101 روپے ادا کرتے ہیں۔
شکایت کے مطابق ایک مشہور ڈویلپر، زاہد رفیق نے کمرشل پلاٹ دینے کے علاوہ، جج کی بیٹی کو 10 ہزار پاؤنڈز برطانیہ میں منتقل کیے اور اس کے علاوہ 51 ہفتوں کے لیے اس کی رہائش کے لیے 395 پاؤنڈز کے ہفتہ وار کرایے کی ادائیگی کی۔
شکایت میں مزید الزام لگایا گیا کہ مذکورہ جج محمد عارف خان کی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی زکوٰۃ و عشر کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر تقرر پر اثر انداز ہوئے اور اس تعیناتی کا انتظام محمد خان بھٹی کے ذریعے کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ شکایت میں مختلف علاقوں میں متعدد پلاٹوں کا بھی حوالہ دیا گیا، جو جج کے قبضے میں ہیں۔