اسلام آباد:(سچ خبریں) سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں کسی بھی یقین دہانی سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے میری طرف سے کرائی گئی کسی یقین دہانی کا علم نہیں ہے۔
عمران خان کے تحریری جواب میں کہا گیا کہ عدلیہ کا بہت احترام ہے، سپریم کورٹ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں عمران خان نے تفصیلی جواب جمع کرانے کے لیے عدالت سے 3 نومبر تک کی مہلت مانگ لی۔
دریں اثنا توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان اور پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کیس سے نام حذف کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ میں فریق ہی نہیں تھا، نہ ہی کسی ادارے کی رپورٹ میں میرا نام آیا، آئی ایس آئی، آئی بی اور پولیس رپورٹس میں مجھ پر کوئی الزام بھی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی وکیل کی جانب سے لگائے گئے زبانی الزام کی کوئی حیثیت نہیں، عمران خان کا نام کسی وکیل نے لیا نہ ہی عدالتی حکم میں کہیں نام لکھا گیا۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ 25 مئی کے عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا لفظ استعمال ہوا، عدالت نے سیکریٹری داخلہ، ڈی سی اٹک کو عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیا تھا، حکومتی عہدیداروں نے عدالتی حکم کے باوجود ملاقات نہیں کرائی، خود کو خطرے میں ڈال کر حکومتی ٹیم سے ملنے گیا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔
اس سے قبل 26 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر سابق وزیر اعظم سے توہین عدالت کیس میں جواب طلب کیا تھا۔
واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف جہاد کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا۔
25 مئی کے اس عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے ایچ-نائن اور جی-نائن کے درمیان پشاور موڑ کے قریب ‘آزادی مارچ’ کے انعقاد سے روک دیا گیا تھا، تاہم عمران خان اور ان کے حامیوں نے عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک کا رخ کیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ مئی میں دیے گئے حکم پر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور ان کے وکیل کی جانب سے اس بات کی واضح یقین دہانیوں کے پیش نظر سیکٹر ’ایچ نائن اور ’جی نائن‘ کے درمیان واقع گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی کہ ان کی ریلی سے سری نگر ہائی وے کو کسی قسم کی تکلیف یا بلاک کرنے یا عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ریلی پرامن اور قانونی طریقے سے آگے بڑھے گی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان یقین دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے ہدایات کو صریح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تلقین کی اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ عدالت نے بغیر کسی شرط کے مارچ کی اجازت دی تھی۔
توہین عدالت کی درخواست میں عوام بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی گئی۔
عدالت عظمیٰ سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے مستقبل کے تمام احتجاجی مظاہروں کے لیے جامع ہدایات بھی جاری کرے جس میں احتجاج کی تاریخ کی پیشگی اطلاع، مقام کا انتخاب، عوامی معمولات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی اور اس عزم کا اظہار شامل ہو کہ مظاہرین سرکاری یا نجی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا موجودہ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر میں اپنایا ہوا لہجہ انتہائی اشتعال انگیز تھا جس کا مقصد عدم اعتماد اور توہین کی حوصلہ افزائی اور بغاوت کو ہوا دینا تھا۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے نہ صرف عوام میں بلکہ عالمی برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے بھی اس مبینہ جہاد کے اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔
حکومت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے مارچ کو بلا روک ٹوک اور بے ضابطگی کے جانے دیا گیا تو اس سے نہ صرف پورے ملک میں سیاسی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا ہوجائے گی بلکہ وفاقی حکومت کی توجہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں سے جڑواں شہروں کے مکینوں کی زندگیوں پر اثرات دور کرنے کی جانب مبذول ہوجائے گی۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کے ماضی کے طرز عمل، خاص طور پر 25 مئی کے واقعات اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی، سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی ان کی مبینہ حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے ان کے آئندہ احتجاج کے بارے میں سخت ہدایات کی ضرورت ہے۔