اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے نگران وفاقی حکومت کی جانب سے سینئر بیوروکریٹس کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اضافہ فوری طور پر واپس لینا چاہیے۔
سینیٹر رضا ربانی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ملک بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہے اور حکومتی اخراجات میں کمی کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیوروکریٹس کی تنخواہیں، ہاؤس رینٹ اور بلوں کی مد میں ادائیگی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ عام آدمی کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں ہے، وہ اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکالنے پر مجبور ہیں اور بلوں کی ادائیگی کے لیے قرضے لینے پڑ رہے ہیں جبکہ اشرافیہ اپنے کیک میں کریم شامل کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کے پاس اضافہ فنڈز ہیں تو وہ گریڈ ون سے 15 تک کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھا سکتی ہے، مزید کہا کہ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے لیے فنڈز نہیں ہیں لیکن انتظامی عہدوں پر تعینات بیوروکریٹس کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے پیسہ دستیاب ہے۔
سابق چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کے اس طرح کے اقدامات سے عام آدمی اور اشرافیہ کے درمیان طبقاتی فرق بڑھ رہا ہے اور یہ اقدام نگران حکومت کی ذمہ داری سے ماورا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے اور قانون نگران حکومت کو اس طرح کے فیصلوں سے روکتا ہے کیونکہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر حکومت امور چلانے ہیں نہ کہ قومی خزانے کے بوجھ میں اضافہ کرنا ہے۔
خیال رہے کہ نگران وفاقی حکومت نے انتظامی عہدوں پر تعینات سینئر بیوروکریٹس کی تنخواہوں اور مراعات میں 45 فیصد اضافہ کردیا ہے، جس کا اطلاق یکم نومبر سے ہوگا۔
وفاقی زارت خزانہ سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ اضافہ تمام ایم پی-ون، ایم پی-2 اور ایم پی-3 اسکیل کے افسران کی تنخواہوں پر لاگو ہو گا، اس میں بنیادی تنخواہیں، مکان کے کرائے اور یوٹیلیٹیز بھی شامل ہیں جس کی منظوری نگران وزیر اعظم نے دی ہے۔
یہ افسران کیرئیر بیوروکریٹس سے علیحدہ ہوتے ہیں، متعلقہ شعبوں میں مہارت کی وجہ سے عام طور پر پرائیویٹ سیکٹر سے ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ ایم پی-ون اسکیل کے افسران کا ماہانہ معاوضہ 5 لاکھ 54 ہزار 600 روپے سے شروع ہوتا تھا، جس میں بنیادی تنخواہ، مکان کا کرایہ اور یوٹیلیٹیز شامل ہیں، زیادہ سے زیادہ ماہانہ معاوضہ 6 لاکھ 99 ہزار 250 روپے ماہانہ تھا، اب کم از کم معاوضہ 8 لاکھ 4 ہزار 180 روپے اور زیادہ سے زیادہ معاوضہ 10 لاکھ 13 ہزار 920 روپے ماہانہ ہوگا۔
اس گریڈ کے افسران کو ٹرانسپورٹ مونیٹائزیشن الاؤنس کی مد میں ماہانہ 95 ہزار 910 روپے بھی ملیں گے، جس سے نظرثانی شدہ ماہانہ پیکیج 9 لاکھ 90 روپے سے 11 لاکھ 9 ہزار 830 روپے کے درمیان تک ہو جائے گا۔
اسی طرح ایم پی-2 اسکیل کے افسران کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ ماہانہ تنخواہ بالترتیب 2 لاکھ 55 ہزار 750 روپے اور 4 لاکھ 13 ہزار 600 روپے تھی، اب یہ کم از کم 3 لاکھ 70 ہزار 850 روپے سے 5 لاکھ 99 ہزار 740 روپے تک ہوگی، اس اسکیل کے لیے ماہانہ مونیٹائزیشن الاؤنس 77 ہزار 430 روپے ہوگا۔
ایم پی-3 گریڈ کے افسران کو ماہانہ ایک لاکھ 65 ہزار 855 سے 2 لاکھ 33 ہزار 750روپے ملتے تھے، یہ رقم اب 2 لاکھ 40 ہزار 460 روپے سے 3 لاکھ 38 ہزار 960 روپے کر دی گئی ہے، 65 ہزار 60 روپے کا مونیٹائزیشن الاؤنس اس کے علاوہ ہے۔
متعلقہ وزارتوں اور ڈویژنوں سے کہا گیا ہے کہ وہ تنخواہوں میں اس نظرثانی کے مطابق اخراجات کو رواں مالی سال کے اپنے مختص بجٹ سے پورا کریں، ہر افسر کی تنخواہ اسی مرحلے پر نظرثانی شدہ ایم پی اسکیل میں طے کی جائے گی جس پر وہ اس نظرثانی سے قبل تنخواہ لے رہے تھے۔
قبل ازیں سنیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا جہاں نگران وفاقی وزیر قانون عرفان اسلم نے نیب ترمیمی آرڈینس توسیع کی قرارداد پیش کی، قرارداد میں کہا گیا کہ آرڈیننس میں 120 دن کی توسیع کر دی جائے۔
نگران وزیر قانون کی نیب ترمیمی آرڈینس میں توسیع کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔