اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے تنخواہوں میں 65 فیصد اضافے کے باوجود سال 2023 کے مقابلے 2024 میں 5.4 فیصد کم مقدمات نمٹائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2024 میں عدالت عالیہ کے 8 ججز نے 10 ہزار 571 مقدمات کا فیصلہ کیا جبکہ 2023 میں عدالت مجموعی طور پر 11 ہزار 170 مقدمات کا فیصلہ کیا تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 ہزار 525، جسٹس محسن اختر کیانی نے 1616، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے 1490، جسٹس ارباب محمد طاہر نے 1195، جسٹس میاں گل اورنگزیب نے 1021، جسٹس بابر ستار نے 964، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے 925 اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز 835 مقدمات کے فیصلے کیے۔
2023 کی ڈسپوزل رپورٹ کے مطابق گزشتہ سے پیوستہ سال نمٹائے گئے 11 ہزار 170 مقدمات میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے 1529، جسٹس محسن اختر کیانی نے 1571، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے 1173، جسٹس ارباب محمد طاہر نے 1134، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے 1079، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خا نے 963، جسٹس بابر ستار نے 790 جبکہ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے 835 مقدمات کے فیصلے کیے تھے۔
مقدمات نمٹانے کی تعداد میں کمی ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب ہائی کورٹ کے ججوں کی تنخواہوں میں 65 فیصد سے زیادہ کا اضافہ کیا گیا ہے۔
نومبر 2023 میں وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ کے ججوں کی تنخواہوں اور گھر کے کرایہ الاؤنس میں اضافہ کیا تھا، ہائی کورٹ کے ججز کے گھروں کا کرایہ 65 ہزار روپے سے بڑھا کر 3 لاکھ 50 ہزار روپے کر دیا گیا ہے، اسی طرح ججز کا اعلیٰ عدالتی الاؤنس 3 لاکھ 42 ہزار 431 روپے سے بڑھا کر 10 لاکھ 90 ہزار روپے کر دیا گیا۔
اضافے کے بعد ہائی کورٹ کے جج کی ماہانہ تنخواہ 20 لاکھ روپے سے تجاوز کر گئی ہے، تاحال اسلام آباد ہائی کورٹ میں 16 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں، مقدمات نمٹانے کی رفتار میں کمی کے باعث بیک لاگ میں اضافہ ہورہا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری شفقت تارڑ کا کہنا تھا کہ درخواستیں دائر کرنے کا عمل ان کے نمٹائے جانے سے تجاوز کر گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے 2024 میں 2500 سے زائد مقدمات کا فیصلہ کیا اور حیرت ہے کہ باقی جج اس تعداد کا مقابلہ کیوں نہیں کرسکے۔
اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین عادل عزیز قاضی نے ڈان کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں 2024 کے دوران سیاسی درخواستوں کی بھرمار تھی، ججوں نے ان مقدمات کو معمول کی درخواستوں کے مقابلے میں ’زیادہ وقت‘ دیا۔