لندن (سچ خبریں) انٹرنیٹ کو لوگوں کی زندگیوں کا حصہ بنے 32 سال ہو گئےتاہم انٹرنیٹ کے بانی ٹم برنرز نے کہا کہ نوجوانوں کی ایک تہائی آبادی کو انٹرنیٹ تک بالکل رسائی حاصل نہیں ہے، کئی نوجوان ایسے ہیں جو انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے ڈیوائسز یا مؤثر کنیکشن نہ ہونے کے باعث ویب سائٹس کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق انٹرنیٹ کی 32 ویں سالگرہ کے موقع پر اس کے بانی ٹم برنرز لی کی جانب سے شائع ہونے والے خط میں کہا گیا ہے کہ کورونا کی عالمی وبا کے بعد انٹرنیٹ کی نوجوانوں تک رسائی کو ممکن بنایا جائے، بالخصوص 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوان جو انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔
ٹم برنرز لی نے کہا کہ نوجوانوں کا اثر و رسوخ آن لائن نیٹ ورکس کے علاوہ ان کی کمیونٹی میں بھی محسوس کیا جاتا ہے، لیکن نوجوانوں کی بڑی تعداد کو انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہونے کے باعث اپنی قابلیت اور خیالات شیئر کرنے کا موقع نہیں مل رہا۔
ٹم برنرز نے کہا کہ 2 ارب 20 کروڑ نوجوانوں کے پاس انٹرنیٹ کا پائیدار کنیکشن ہی موجود نہیں ہے جس کے باعث وہ کورونا کے دوران آن لائن تعلیم نہیں حاصل کر سکے، جبکہ انٹرنیٹ کی سہولت نے دیگر کو اپنی پڑھائی جاری رکھنے میں مدد دی ہے۔ان کے خیال میں دنیا بھر کے ہر نوجوان کو انٹرنیٹ تک رسائی دینا فائدہ مند ہوگا۔
برنرز لی کے اندازے کے مطابق اگلے دس سالوں میں ہر ایک شخص کو براڈ بینڈ کنیکشن کی سہولت فراہم کرنے کا خرچ تقریباً چار کھرب ڈالر آئے گا۔کورونا کی عالمی وبا کے بعد دنیا بھر میں یہ شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ نوجوانوں کو انٹرنیٹ تک رسائی ملنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ان کی تعلیم میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو۔کورونا کے دوران لاک ڈاؤن اور سکولوں کی بندش سے متعدد طلبا کی انٹرنیٹ اور کمپیوٹر نہ ہونے کے باعث پڑھائی متاثر ہوئی ہے۔