سچ خبریں:وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے وزیر برائے اسٹریٹجک امور ران ڈرمر کے ساتھ ملاقات میں اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کو منظوری دے دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا اسرائیل حزب اللہ کو ختم کر سکتا ہے؟فارن افیئرز کی رپورٹ
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق ٹائمز آف اسرائیل نے لکھا ہے کہ ران ڈرمر نے لبنان کی موجودہ صورتحال پر ٹرمپ کو بریفنگ دی، جس کے بعد ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ 20 جنوری 2025 کو ان کی حلف برداری سے پہلے نافذ ہو جائے گا۔
اسرائیلی وزیر کی ملاقاتیں
اس ملاقات کے دوران ران ڈرمر نے جیرڈ کشنر، جو ٹرمپ کے داماد اور سابق مشیر رہ چکے ہیں اور جو بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں۔
امریکی سفیر کی پیشکش
اس سے قبل اعلان کیا گیا تھا کہ لبنان میں امریکی سفیر نے جنگ بندی کے معاہدے کا مسودہ لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کو پیش کیا تھا۔
یہ معاہدہ خطے میں جاری تنازع کو کم کرنے کی ایک بڑی کوشش کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ: اسرائیل کا تحفہ
واشنگٹن پوسٹ نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اسرائیل ٹرمپ کے لیے ایک جنگ بندی معاہدہ بطور تحفہ تیار کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ معاہدہ ٹرمپ کی حلف برداری کے وقت جنوری 2025 میں پیش کیا جائے گا۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ یہ معاہدہ لبنان کے ساتھ امن کی جانب ایک اہم پیش رفت ہوگا۔
اسرائیلی منصوبہ اور شرائط
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی جنگ بندی کی تجویز میں مغربی ممالک اور روس کے ساتھ تعاون شامل ہوگا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ معاہدہ ناکام ہوتا ہے، تو اسرائیل لبنان میں زمینی کارروائیوں کو مزید شدت دے گا۔
جنگ بندی کی شرائط میں شامل ہے کہ حزب اللہ کو دریائے لیطانی کے پیچھے ہٹنا ہوگا، جبکہ ابتدائی مرحلے میں لبنان کی فوج امریکہ اور برطانیہ کی نگرانی میں 60 دن کے لیے سرحدی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے گی۔
نتیجہ
ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط خطے میں امن کی کوششوں کی جانب ایک اہم قدم ہیں۔
اس معاہدے کو اسرائیل کی جانب سے ٹرمپ کے لیے ایک سفارتی اور سیاسی تحفہ قرار دیا جا رہا ہے، جو نہ صرف امریکہ بلکہ خطے میں مغربی ممالک اور روس کے کردار کو بھی بڑھائے گا۔
مزید پڑھیں: جنوبی لبنان میں زمینی حملے کے آغاز سے اسرائیلی فوج کو ہونے والا نقصان
یہ صورتحال خطے میں جاری تنازع کو حل کرنے کی ایک اہم کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔