غزہ (سچ خبریں) ایسے میزائل جنہوں نے تل ابیب کو ہلا کر رکھ دیا اور ہر طرف میزائل ہی میزائل نظر آرہے تھے، اس منظر کے بعد جنگ کا رخ ہی بدل گیا اور مزاحمتی گروپ نے صہیونی ریاست کو شکست سے دوچار کردیا۔
ہم ایک ایسی مزاحمت کی بات کر رہے ہیں جس نے صہیونی حکومت کو پہلی بار آباد کاروں کا طریقہ کار تبدیل کرنے پر مجبور کردیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ بیت المقدس کے اتحاد کا عمل بہت ضروری ہے، خاص طور پر ایسے وقت جب اس حکومت کے ایک مصنف نے اس منظر کے بعد اعتراف کیا کہ فلسطینی اس سرزمین کے اصلی مالک ہیں اور ہم نے ان کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، اس اعتراف نے یہ ثابت کردیا کہ اصلی حق دار خالی ہاتھوں اور ایمان کی طاقت سے سب سے بڑی فوج کو شکست دے سکتا ہے۔
لیکن ان سب سے اہم بات یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے اندرونی شہروں بالخصوص اللد، حیفا، یافا، عکا، ام الفحم اور کفر مند میں فلسطینیوں نے وسیع پیمانے پر مقابلہ کرنا شروع کردیا ہے۔
اس منظر نے صیہونی حکومت میں شدید بوکھلاہٹ اور اس کے قائدین اور مفکرین کو مکمل طور پر مایوس کردیا ہے، 73 سال کی قید کرنے کے بعد کے بعد، اچانک انہیں ہوش آیا اور انہوں نے دیکھا کہ فلسطینی شناخت ابھی باقی ہے، 17 لاکھ فلسطینی وطن میں باقی رہے اور اب صیہونی حکومت کے اندر دستی بم بن گئے ہیں۔
انہوں نے اگرچہ مجبوری کے سبب اسرائیلی حکومت کی شہریت قبول کرلی اور عبرانی بولتے اور حتی عبرانی سوچتے بھی ہیں، اور جب آپ کسی دوسری قوم اور لوگوں کی زبان میں سوچ سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ان کے اندر ایسا رسوخ پیدا کر لیا ہے کہ ان کی طاقت اور کمزوریوں کو اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں، 1948کے فلسطینیوں کی ایسی خصوصیات ہیں۔
قابض صہیونی حکومت شاید مزاحمت کرنے کے جرم میں غزہ کا محاصرہ کرکے فلسطینیوں کو مغربی کنارے سے علیحدہ کرنے میں کامیاب رہی ہے، لیکن وہ فلسطینی جو اس حکومت کے اندر مقیم ہیں ان کے ساتھ یہ حکومت کیا کر رہی ہے؟!.
نیتن یاہو نے آگ کے شعلوں کے ساتھ کھیلا لیکن یہ نہیں سوچا کہ اس آگے کے جو شعلے تل ابیب اور اسرائیل کے دوسرے شہروں تک پہونچیں گے ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔