سچ خبریں: غزہ میں 350 دنوں پر مشتمل جنگ صہیونی مظالم کی ناقابل تصور داستان بیان کر رہی ہے اور صہیونی فوج کے ظلم و ستم کی سنگین حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے۔
فلسطینی خبر رساں ادارے شہاب کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں 350 دنوں سے جاری اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کے تازہ ترین اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں، جو صہیونی فوج کے ظلم و ستم کی سنگین حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 340 دنوں میں صہیونی فوج نے 3594 سے زائد جرائم کا ارتکاب کیا، جن کے نتیجے میں 51272 فلسطینی شہید یا لاپتہ ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ شہداء کے تازہ ترین اعداد و شمار
ان میں سے تقریباً 10 ہزار افراد تاحال لاپتہ ہیں، جبکہ باقی شہداء کی لاشیں اسپتالوں تک پہنچائی جا چکی ہیں، ان شہداء میں 16814 بچے شامل ہیں جن میں 171 بچے وہ ہیں جو جنگ کے دوران پیدا ہوئے اور فوراً شہید ہو گئے۔
رپورٹ کے مطابق شہداء میں 36 افراد بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ 11395 خواتین بھی شہداء میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 986 طبی عملے کے افراد، 84 شہری دفاعی اہلکار اور 173 صحافی بھی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غیر قانونی طور پر کچھ شہداء کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا، جن میں سے سات اجتماعی قبرستانوں کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان میں سے 520 شہداء کی لاشیں نکال کر باقاعدہ تدفین کی گئی ہے۔
اس جنگ میں 95551 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں سے 69 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ صہیونی جارحیت کے دوران فلسطینی پناہ گزینوں کے 180 مراکز کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غزہ میں صہیونی جرائم کے نتیجے میں 19 ہزار سے زائد بچے اپنے والدین سے محروم ہو چکے ہیں یا ان کے والدین میں سے ایک جاں بحق ہو چکا ہے، 3500 سے زائد بچے غذائی قلت کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
مزید یہ کہ، 136 دنوں سے غزہ کے تمام داخلی راستے بند ہیں، جس کی وجہ سے 12 ہزار زخمیوں کو علاج کے لیے غزہ سے باہر بھیجنا ضروری ہے۔
10 ہزار سے زائد کینسر کے مریض دوائیوں اور طبی امداد کی کمی کے باعث موت کے خطرے میں ہیں، اور انہیں بھی فوری طور پر علاج کے لیے باہر بھیجا جانا ضروری ہے۔
دیگر دائمی امراض میں مبتلا 3 ہزار سے زائد مریض بھی علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے کے منتظر ہیں۔
غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک 17 لاکھ سے زائد افراد مختلف متعدی بیماریوں اور التہابات کا شکار ہو چکے ہیں، جو غزہ کے عوام کی بے دخلی اور ناقص صحت کی دیکھ بھال کے نتیجے میں پیدا ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق، 60 ہزار سے زائد حاملہ خواتین مناسب طبی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث موت کے خطرے سے دوچار ہیں، جبکہ 3 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ دائمی بیماریوں میں مبتلا مریض، ادویات کی ترسیل پر پابندی کے باعث خطرے میں ہیں۔
صہیونی افواج نے اس جنگ کے دوران تقریباً 5 ہزار غزہ کے شہریوں کو قید کیا ہے، جن میں 310 طبی عملے کے ارکان شامل ہیں، اس کے علاوہ، 36 صحافی بھی صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے ہیں۔
صہیونی حملوں کے نتیجے میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد غزہ سے بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ 200 سے زائد سرکاری مراکز کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔
ان حملوں میں 125 تعلیمی ادارے اور 336 اسکول اور یونیورسٹیاں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں، اور 11,500 سے زائد طلبہ و طالبات صہیونی مظالم کا نشانہ بن کر شہید ہو چکے ہیں۔
750 اساتذہ اور تعلیمی عملے کے افراد بھی اس جنگ میں شہید ہو چکے ہیں، جبکہ 115 سے زیادہ پروفیسر اور محققین کو اسرائیلی افواج نے ہلاک کیا ہے۔
صہیونی حملوں میں 611 مساجد مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں، جبکہ 214 مساجد کو جزوی نقصان پہنچا ہے، 3 گرجا گھر بھی ان حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
اسرائیلی افواج کی وحشیانہ کارروائیوں میں 1,50,000 سے زائد رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، جبکہ 80,000 گھر رہائش کے قابل نہیں رہے، 2 لاکھ سے زائد گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
صہیونی افواج نے جنگ کے دوران غزہ کے عوام پر 83 ہزار ٹن سے زائد دھماکہ خیز مواد گرایا، جس کے نتیجے میں 34 اسپتال مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں جبکہ 80 سے زائد طبی مراکز فعال نہیں ہو پا رہے۔ صہیونیوں نے 162 طبی اداروں اور 131 ایمبولینسوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس سے غزہ کے طبی نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
غزہ میں صہیونی حملوں کے نتیجے میں 206 تاریخی اور سیاحتی مقامات کو تباہ کر دیا گیا ہے، جبکہ 3130 کلومیٹر بجلی کے نیٹ ورک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
اس کے علاوہ، صہیونی افواج نے 36 کھیلوں کے مراکز اور انفراسٹرکچر کو بھی نشانہ بنایا ہے اور تقریباً 700 پانی کے کنویں حملوں کے بعد ناقابلِ استعمال ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: نیتن یاہو خطہ کو کہاں لے جا رہے ہیں؟فرانسیسی صدر کا بیان
رپورٹ کے مطابق، 340 دنوں کے دوران صہیونی افواج کے وحشیانہ حملوں سے غزہ کو پہنچنے والے ابتدائی اور براہ راست نقصانات کا تخمینہ 33 ارب ڈالر سے زائد ہے، جو اس علاقے کی معیشت اور بنیادی ڈھانچے کے لیے ایک تباہ کن صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔