میانمار (سچ خبریں) میانمار کی معزول رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف غداری کے الزام میں ٹرائل کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے اور وہ دارالحکومت نیپیدا کی عدالت میں پیش ہوئیں جہاں جنتا نے ان پر لگائے گئے غداری کے الزام کی حمایت میں پیش کیے گئے گواہ کا بیان ریکارڈ کیا۔
تفصیلات کے مطابق میانمار میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں حکومت کا تختہ الٹنے کے 4 سے زائد ماہ کے بعد میانمار کی معزول رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف ایک جنتا (فوجی) عدالت میں غداری کے الزام میں ٹرائل کا آغاز کردیا گیا۔
آنگ سان سوچی کی وکیل من من سوئے نے کہا کہ معزول رہنما میانمار کے دارالحکومت نیپیدا کی عدالت میں پیش ہوئیں جہاں جنتا نے ان پر لگائے گئے غداری کے الزام کی حمایت میں پیش کیے گئے گواہ کا بیان ریکارڈ کیا۔
عدالت نے ان کے خلاف علیحدہ الزام پر بھی بیان ریکارڈ کیا کہ گزشتہ برس ہونے والے انتخابات کے دوران جب ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کامیاب ہوئی تو آنگ سان سوچی نے کورونا وائرس کی پابندیوں کی خلاف ورزی کی تھی، اگر آنگ سان سوچی پر لگائے گئے تمام الزامات ثابت ہوجاتے ہیں تو 75 سالہ نوبیل انعام یافتہ رہنما کو ایک دہائی سے زائد عرصے تک قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
جنتا (فوج) کی جانب سے دارالحکومت میں تعمیر کیے گئے ویران کمرہ عدالت میں جاری کارروائی کے دوران صحافیوں کا داخلہ منع تھا جہاں صرف گواہ، درخواست گزار اور پروسیکیوشن کے وکلا کے ساتھ ساتھ صرف ایک جج اور 2 کلرک موجود تھے، ایک صحافی نے کہا کہ کمپاؤنڈ کے گرد پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔
گھر میں نظر بند کی گئیں آنگ سان سوچی کو سونے کی غیر قانونی ادائیگیاں قبول کرنے اور نوآبادیاتی دور کے رازداری کے قانون کی خلاف ورزی کرنے سمیت کئی الزامات کا سامنا ہے۔
ان کے علاوہ سابق صدر ون مینٹ اور سینئر این ایل ڈی رہنما ڈاکٹر میو آنگ کے خلاف بھی غداری کے مقدمات چل رہے ہیں اور وہ بھی گزشتہ روز آنگ سان سوچی کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے تھے، وکیل من من سوئے نے کہا کہ مقدمے کی کارروائی اب اگلے ہفتے ہوگی۔
خیال رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کی صبح جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔
فوج کے زیر ملکیت ایک ٹی وی اسٹیشن پر جاری بیان کے مطابق فوج نے کہا تھا کہ اس نے انتخابی دھاندلی کے جواب میں نظربندیاں کی ہیں جس میں فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ کو اقتدار دیا گیا ہے اور ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں این ایل ڈی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی جسے آنگ سان سو چی کی جمہوری حکومت کے لیے ریفرنڈم کے طور پر دیکھا گیا۔
بغاوت کی یہ صورتحال سول حکومت اور فوج کے درمیان کئی روز سے جاری کشیدگی میں اضافے کے بعد سامنے آئی جس نے انتخابات کے نتیجے میں بغاوت کے خدشات کو جنم دیا تھا۔