سچ خبریں: صہیونی محافل میں یحیی السنوار کی شخصیت کے بارے میں بہت سارے تجزیے ہو رہے ہیں ، یہاں پر ہم السنوار کے اسرائیلی جیلوں میں قید کے دوران ان سے ملاقات کرنے والے اسرائیلیوں کے خیالات اور نظریات کو بیان کریں گے۔
عربی 21 نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق صیہونی دانتوں کے ڈاکٹر اور سابق انٹیلیجنس آفیسر جو 1989 سے 2011 تک صیہونی جیل میں رہنے والے قیدی نمبر 733335 یحیی السنوار کو جانتے تھے، اُنہوں نے ان کی شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔
صہیونی حکومت کی انٹیلیجنس سروس کے ایک سینئر آفیسر بیتون نے کئی گھنٹے السنوار کے ساتھ گفتگو اور ان کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے گزارے، ان کا دعوی ہے کہ وہ السنوار کے خیالات اور فکر کو اچھی طرح جانتے ہیں اور کسی بھی دوسرے اسرائیلی سے بہتر انہیں پہنچانتے اور جانتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اپنے قیدیوں کی آزادی کے لئے جو قیمت ادا کرنی پڑے گی وہ اسرائیل کے لئے مطلوب نہیں ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: یحییٰ السنوارصیہونیوں کو کتنا جانتے ہیں؟ صہیونی تجزیہ کار کی زبانی
اس رپورٹ کے مطابق السنوار نے اپنے ایک انٹرویو میں ایک اطالوی صحافی سے کہا تھا کہ جیل انسان کو بناتی ہے اور اُسے اپنے عقائد پر غور کرنے کے لئے کافی وقت دیتی ہے۔
1989 میں جب وہ صرف 27 سال کے تھے، انہیں گرفتار کر لیا گیا ،وہ متعدد بار صہیونی حکومت کی جیلوں سے فرار ہونے کی کوشش کر چکے ہیں اور بارہا حماس کے رہنماؤں سے جیل کے باہر رابطہ قائم کر چکے ہیں اور موبائل فون جیل کے اندر لانے کا طریقہ جانتے تھے، وہ جانتے تھے کہ وکلا اور ملاقاتیوں کے ذریعے اپنے پیغامات باہر کیسے پہنچائیں، ان کے بہت سے پیغامات اسرائیلی فوجیوں کے اغوا کے بارے میں تھے تاکہ ان کے بدلے میں قیدیوں کا تبادلہ کیا جا سکے۔
جیل میں فولادی عزم اور ارادہ
اس رپورٹ کے مطابق وہ عبرانی زبان کو اچھی طرح جانتے تھے اور انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم حاصل کرتے رہے، وہ ہمیشہ اسرائیل کی خبریں دیکھتے رہتے تھے تاکہ مقبوضہ علاقوں کی داخلی صورتحال سے بہتر طریقے سے آگاہ رہیں۔
بیتون کہتے ہیں کہ السنوار نے دیگر قیدیوں کو اپنے ترجمہ کردہ اسرائیلی کتابوں کے صفحات فراہم کیے تاکہ وہ دشمنوں سے لڑنے کے لئے انٹیلیجنس ایجنسیوں کی تیکنیکوں سے واقف ہو سکیں، وہ اپنے ساتھی قیدیوں سے کہتے تھے کہ صیہونی چاہتے ہیں کہ جیل کو ہماری قبر بنا دیں اور ہمارے عزم و ارادہ کو ہمارے جسم کے ساتھ توڑ دیں، لیکن الحمدللہ ہم فلسطین کے مقصد پر یقین رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے جیل کو مختلف علوم حاصل کرنے کی جگہ بنا دیتے ہیں۔
السنوار کا سکون اور شکرگزاری
بیتون جو زخمی قیدیوں کی پٹی اور علاج کے لئے جیلوں میں جاتے تھے، بارہا کوشش کر چکے تھے کہ السنوار اور دیگر فلسطینی فوجیوں کو اسرائیلی بازپرسوں کے ساتھ تعاون پر راضی کریں، وہ کہتے ہیں کہ اُس وقت السنوار اپنی گردن کے پچھلے حصے میں درد میں مبتلا تھے ، شاید ان کو دماغی ضرب لگی تھی اور فوراً ہسپتال منتقل کرنے کی ضرورت تھی۔
سرجری کے چند دن بعد بیتون نے السنوار سے ملاقات کی تو انہوں نے اُن کا شکریہ ادا کیا، وہ بیتون کو سمجھانا چاہتے تھے کہ اسلام میں کس طرح کسی کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے جس نے اُن کی جان بچائی ہو، بیتون کے لئے یہ جاننا دلچسپ تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اس نکتہ کی کتنی اہمیت ہے۔
بیتون ایک باتونی شخصیت تھے اور بہت سے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ گفتگو میں مشغول رہتے تھے اور اُن کے ساتھ اُن کے خاندان یا پسندیدہ کھیلوں کے بارے میں بات کرتے تھے، وہ السنوار کے ساتھ باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے لیکن ہمیشہ اُن کے ساتھ اُن کے کاموں اور عقائدی نظریات کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔
بیتون کہتے ہیں کہ میری باتیں سنوار کے ساتھ ذاتی یا جذباتی نہیں تھیں، انہیں قرآن اچھی طرح سے یاد تھا اور اپنے تنظیم کے حکمرانی کے اصولوں پر پرسکون طریقے سے بات کرتے تھے۔
2004 کی جیل کی تلاشی کے دوران السنوار کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریریں ملیں جن میں اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان روابط اور خاندانی موضوعات پر بات کی گئی تھی اور اُن میں سے کم از کم ایک کاپی جیل کے باہر منتقل کی گئی تھی۔
جیل میں مثالی انکساری
بیتون کہتے ہیں کہ بئر السبع کی جیل میں السنوار بلاشبہ قیدیوں کے سربراہ تھے لیکن وہ کبھی اس بات کا اعلان نہیں کرتے تھے اور اس پر فخر نہیں کرتے تھے، وہ بہت متواضع تھے اور اپنا کھانا دوسروں کے ساتھ تقسیم کرتے تھے اور جیل کے کاموں میں کم عمر قیدیوں کی مدد کرتے تھے۔
یہ صہیونی ڈاکٹر السنوار کو ایک بہت زیادہ چالاک اور دھوکہ دہی کرنے والا شخص بتاتے ہیں جو بہت سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں، وہ جیل کے اندر بھی دوسروں کے رازوں کو محفوظ رکھتے تھے اور دوسروں کے ساتھ تعامل میں ایمانداری برتتے تھے۔
گلعاد شالیت کی قید کے بعد، جب اسرائیلی کابینہ نے قیدیوں کے تبادلے کی بات چیت کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے تعلقات کا استعمال کیا، بیتون کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ حماس کے زندانی کمانڈروں کے ساتھ اپنے تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے ان سے جاسوسی معلومات جمع کریں، وہ کہتے ہیں کہ السنوار نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر، جو ان کے ساتھ تھے، جیل کے اندر سے مذاکرات کو منظم کیا۔
وہ ڈاکٹر جو السنوار کی آزادی کے خلاف تھا
گرہارد کونراد، جرمن انٹیلیجنس سروس کے افسر جو اس تبادلے کے درمیانجی تھے، کہتے ہیں کہ اگرچہ السنوار کا نام تبادلے کی فہرست میں تھا، تاہم وہ مانتے تھے کہ تبادلہ حماس کے لئے کوئی خاص فائدہ مند نہیں ہے اور تمام قیدیوں کو آزاد کر دینا چاہیے۔
بیتون کہتے ہیں کہ جب السنوار کو اسرا کے تبادلے کے آپریشن میں آزاد کرنے کا وقت آیا، تو انہوں نے تجویز دی کہ السنوار کی شخصیت کے پیشِ نظر انہیں آزاد نہیں کیا جانا چاہیے؛ تاہم صہیونیوں نے اُن سے کہا کہ اُن کے ہاتھ اسرائیلیوں کے خون سے نہیں رنگے ہوئے ہیں لہذا ان کی آزادی کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بیتون کا ماننا تھا کہ فلسطینی قیدیوں کی آزادی ان کی مختلف صلاحیتوں کی بنا پر ہونی چاہیے نہ کہ ان کے ماضی کے اعمال کی بنیاد پر۔
مزید پڑھیں: شہید سلیمانی کے راستے پر چلنے والے اہم فلسطینی کمانڈر
بیتون کہتے ہیں کہ جب السنوار جیل سے نکل رہے تھے اور اسرا کی بس پر سوار تھے، انہوں نے کہا کہ وہ دیگر فلسطینی قیدیوں کی آزادی کے لئے کوئی کوشش نہیں چھوڑیں گے، انہوں نے کہا کہ وہ القسام بریگیڈ سے کہیں گے کہ وہ مزید صہیونی فوجیوں کو گرفتار کریں تاکہ دیگر فلسطینی قیدیوں کی آزادی کی تیاری کی جا سکے۔