جنیوا (سچ خبریں) سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں سربراہ اجلاس کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادی میر پوٹن کے مابین اہم ملاقات ہوئی جس میں دونوں رہنماؤں نے دوبارہ سے سفارتی تعلقات قائم کرنے پر زور دیا۔
تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انہوں نے جینیوا میں اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن کے ساتھ ملاقات میں انسانی حقوق، سائبرحملوں، مشرقی یورپ میں اتحادیوں کے تحفظات سمیت اہم معاملات پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
دوسری جانب پوٹن نے بائیڈن کو ایک تعمیری رہنما قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اچھے ماحول میں کئی ایک اختلافی معاملات پر تبادلہ خیال کیا ہے اور دونوں رہنماؤں نے اپنے سفیروں کو ایک دوسرے کے ملکوں میں بھجوانے پر اتفاق کیا ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا کی ایک جھیل کے کنارے واقع ولا لا ڈی لا گرینج (La Grange) میں امریکہ اور روس کے سربراہوں کے درمیان ملاقات چار گھنٹے تک جاری رہی، جو بائیڈن کے مشیروں نے اس ملاقات کی طوالت کے حوالے سے جن توقعات کا اظہار کیا تھا وہ پوری نہیں ہو سکیں۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے روس میں انسانی حقوق کی صورت حال بشمول امریکہ کے دو شہریوں کی گرفتاری کے معاملے پر زور دیا، بائیڈن کے بقول امریکی شہریوں کو ناجائز طور پر روس میں قید رکھا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ روس میں حزب اختلاف کے رہنما الیگسی نیوالنی کے کیس پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار جاری رکھیں گے، نیوالنی روس میں زیر حراست ہیں، بائیڈن نے کہا کہ وہ روس کے اندر بنیادی انسانی حقوق پر اپنے تحفظات ظاہر کرتے رہیں گے۔
رائٹرز کے مطابق جو بائیڈن نے بریفنگ میں بتایا کہ انہوں نے اور مسٹر پوٹن نے سائبر سیکیورٹی کے معاملے پر کافی دیر گفتگو کی ہے۔
بائیڈن کے بقول انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ امریکہ ان اقدامات کا جواب دے گا جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو زک پہنچاتے ہوں۔
ولادی میر پیوٹن سے جب سوال کیا گیا کہ جو بائیڈن نے تو ایک حالیہ انٹرویو میں ان کو قاتل قرار دیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ مسٹر بائیڈن نے اس بارے میں ان کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں اپنا موقف بیان کر دیا تھا۔
روسی صدر نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کی آنکھوں اور دل میں جھانکنے کی ضرورت نہیں، ہم دونوں اپنے اپنے ملکوں اور عوام کے مفادات کا دفاع کر رہے ہیں اور ہمارے تعلقات عملیت پسندی پر مبنی ہیں۔
68 سالہ صدر پوٹن نے ملاقات ختم ہونے کے بعد پہلے صحافیوں کو بریفنگ دی اور کہا کہ امریکی ہم منصب کے ساتھ ان کی ملاقات سود مند رہی ہے، ملاقات دوستانہ ماحول میں ہوئی، جس میں ان کے بقول، دونوں راہنماوں کی جانب سے ایک دوسرے کو سمجھنے کی خواہش ظاہر ہوتی ہے۔
مسٹر پوٹن نے یہ بھی کہا کہ روس اور امریکہ جوہری معاملات میں استحکام کی مشترکہ ذمہ داری رکھتے ہیں اور جوہری اسلحے کو محدود کرنے کے نئے سٹارٹ معاہدے میں حالیہ توسیع کے حوالے سے ممکنہ تبدیلیوں پر مذاکرات منعقد کریں گے۔
امریکہ اور روس کے رہنماؤں نے ملاقات سے قبل ایک دوسرے کا شکریہ ادا کیا اور ملاقات سے قبل میڈیا کے سامنے نمودار ہوئے، اس موقع پر امریکی اور روسی صحافیوں کے درمیان دھکم پیل بھی ہوئی۔
روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے ایک مترجم کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے، اس ملاقات کی دعوت پر صدر جو بائیڈن کا شکریہ ادا کیا۔
روسی صدر نے مزید کہا کہ واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان کئی معاملات مجتمع ہو گئے ہیں، جو اعلی ترین سطح پر ملاقات کے متقاضی ہیں، انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ یہ ملاقات ثمر آور ثابت ہو گی۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اس کا جواب نرم انداز میں یہ کہتے ہوئے دیا، کہ بہت شکریہ، جیسا کہ میں نے باہر بھی کہا ہے، میرے خیال میں یہ ہمیشہ بہتر رہتا ہے کہ رو برو ملاقات ہو۔
امریکہ اور روس، دونوں فریق اس ملاقات کی اہمیت اجاگر کرتے رہے ہیں، لیکن دونوں فریقوں نے آپس کے کشیدہ تعلقات میں بہتری کی امیدیں کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کیا ہے۔ اس ملاقات کے بارے میں توقع تھی کہ دونوں ملک اس موقع کو کسی بڑے معاہدوں کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے سامنے اپنی رنجشیں بیان کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔