سچ خبریں:14عرب ممالک میں کیے جانے والے سروے کے مطابق ان ممالک کے باشندوں میں سے اوسطاً 84 فیصد صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خلاف ہیں۔
ویب سائٹ "Jewish News” نے 14 عرب ممالک میں کیے گئے سروے کے نتائج کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان ممالک کے 84 فیصد باشندے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خلاف ہیں،اس ویب سائٹ کے مطابق اس سروے میں ملکی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں وسیع پیمانے پر سوالات پوچھے گئے ، ان میں سے 72 فیصد اپنے ملک میں جمہوری حکومت چاہتے ہیں،اس کے علاوہ، جواب دہندگان میں سے 87 فیصد کا خیال تھا کہ ان کے ملک میں مالی اور انتظامی بدعنوانی پھیل چکی ہے۔
صیہونی حکومت کے بارے میں 84 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ اپنے ملک کی طرف سے اس حکومت کو تسلیم کرنے کے خلاف ہیں،دریں اثنا، ان میں سے 36٪ نے کہا کہ فلسطین میں نوآبادیاتی قبضے کا نظام صیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے ان کی مخالفت کی وجہ ہے جبکہ 9٪ نے کہا کہ صیہونی حکومت عربوں کی مزید زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔
خلیج فارس کے عرب ممالک پر توجہ مرکوز کرنے والے نیشنل سکیورٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی این ایس ایس) کے ایک محقق یوئل جوزانسکی نے یہودی نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ انہیں حیرت نہیں ہوئی کہ 84 فیصد عرب سمجھوتے کے خلاف ہیں،انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے اردن اور مصر کے ساتھ امن معاہدوں سمیت معمول کے معاہدے، ان ممالک کےحکام کے ساتھ تھے، عوام کے ساتھ نہیں، جبکہ مصر کی زیادہ تر آبادی اسرائیل مخالف ہے
اس سروے کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے 38 فیصد باشندوں نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کی اور 57 فیصد نے جواب نہ دینے کو ترجیح دی۔ (یہ مسئلہ سعودی حکومت کے ردعمل کے خوف کی وجہ سے ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت بھی بہت سے لوگ تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کی وجہ سے آل سعود کی جیلوں میں ہیں)۔
جوزانسکی کا مزید کہنا تھا کہ محمد بن سلمان کی جانب سے آج تک اسرائیل کے ساتھ مفاہمتی معاہدے پر دستخط نہ کرنے کی ایک وجہ اس معاملے کے سلسلے میں بڑی تعداد میں سعودی باشندوں کی مخالفت ہے۔