سچ خبریں: مغربی ایشیائی امور کے ایک معروف امریکی ماہر کا خیال ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو یہودی تاریخ کے بدترین رہنما کے طور پر جانے جائیں گے اور غزہ کی جنگ دوسری جنگ عظیم کا ایک مظہر ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مشہور تجزیہ نگار تھامس فریڈمین نے مقبوضہ علاقوں کے ایک معروف عبرانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے صیہونی حکومت کی موجودہ کابینہ اور اس کے وزیراعظم کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور اس حکومت کی ملکی اور خارجہ پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ کی تباہی دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی تباہی سے زیادہ
پیر کے روز الجزیرہ نیوز ویب سائٹ نے غزہ جنگ اور نیتن یاہو کی کابینہ کی صورتحا کے سلسلے میں صہیونی اخبار ہاریٹز کے ساتھ امریکی میگزین نیویارک ٹائمز کے صحافی اور سینئر کالم نگار تھامس فریڈمین کے انٹرویو کا تفصیلی جائزہ لیا۔
فریڈمین نے عبرانی اخبار ہارٹیز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سچ کہوں تو میرے خیال میں یہ اسرائیل کی اب تک کی بدترین حکومت ہے، مجھے یقین ہے کہ نیتن یاہو نہ صرف اسرائیل کی تاریخ میں بلکہ پوری یہودی تاریخ کے بدترین رہنما کے طور پر یاد کیے جائیں گے۔
غزہ جنگ کے انتظام میں نیتن یاہو کی کابینہ کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ میں اس اسرائیلی حکومت کو اپنے پوتے کی آنے والی پارٹی تک باقی رہنے کی اجازت نہیں دوں گا، وہ واقعی نااہل ہیں۔
فریڈمین نے اسرائیلی کابینہ کی طرف سے جنگ کے بعد کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرنے سے انکار پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ دو لوگوں کے لیے دو ریاستیں بنانے کے لیے شراکت داری میں داخل ہوتا ہے، تو وہ اپنے 3 موجودہ مسائل حل کر سکتا ہے: بیانیہ کو تبدیل کرنا، غزہ کے لیے اختیارات میں تبدیلی اور اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ علاقائی اتحاد کو مضبوط کرنا۔
امریکی تجزیہ نگار نے غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ کو دوسری جنگ عظیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب یوکرین میں جنگ شروع ہوئی تو میں نے کہا کہ یہ دراصل پہلی جنگ عظیم ہے جبکہ جس جنگ کو ہم پہلی جنگ عظیم کہتے ہیں وہ عالمی جنگ نہیں تھی۔
فریڈمین نے وضاحت کی کہ یوکرین میں جنگ پہلی جنگ عظیم تھی کیونکہ لوگ اسے اپنے اسمارٹ فونز پر فالو کر سکتے تھے اور وہ اس پر تبصرہ کر سکتے تھے نیز زراعت پر اس کا اثر فوری ہوا اور اس نے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ کیا، یہ ایک حقیقی عالمی جنگ تھی۔ "
غزہ کی پٹی میں دوسری جنگ عظیم
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے شبہ ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ دراصل دوسری جنگ عظیم ہے، کہ دنیا میں ہر کوئی اس کے بارے میں رائے رکھتا ہے، اس کی پیروی کرتا ہے اور اس سے متاثر ہوتا ہے۔
فریڈمین نے کہا کہ وہ غزہ میں اسرائیل کے جرائم کو نسل کشی نہیں سمجھتے ، مجھے یہ خوفناک لگتا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ نسل کشی ہے،یہ ایک خوفناک جنگ ہے جس میں بہت سے شہری مارے جاتے ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ جنوبی افریقہ کا اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ اسرائیل بغیر کسی سیاسی وژن یا مستقبل کے تزویراتی منصوبے کے جنگ میں چلا گیا، اس طرح وہ خود کو نسل کشی کے الزامات سے بری نہیں کر سکتا۔
ٹرمپ اور نیتن یاہو کے بارے میں اسرائیلیوں اور امریکیوں کو فریڈمین کی وارننگ
فریڈمین نے انٹرویو کا اختتام دو سنگین انتباہات دیے: پہلا امریکیوں کے لیے ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ منتخب نہ کریں اور دوسرا اسرائیلیوں کے لیے ہے کہ نیتن یاہو اور اس کی اتحادی حکومت کو بے دخل کرنے کے لیے ووٹ دیں۔
فریڈمین نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر نیتن یاہو اس جنگ میں بچ جاتے ہیں اور ٹرمپ دوبارہ منتخب ہو جاتے ہیں، تو وہ دنیا جو میں اپنے نئے پوتے پوتیوں کے لیے چھوڑنا چاہتا ہوں، باقی نہیں رہے گی۔
مزید پڑھیں: دوسری جنگ عظیم کے بعد غزہ کی صورتحال برلن سے بھی زیادہ تباہ
واضح رہے کہ غزہ کی وزارت صحت نے اپنے تازہ ترین اعدادوشمار میں آج اعلان کیا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ پر صہیونی فوج کے تباہ کن اور مہلک حملوں کے نتیجے میں اب تک 31 ہزار 726 فلسطینی شہید اور 73 ہزار 792 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔