سچ خبریں: لبنانی روزنامہ الاخبار کے چیف ایڈیٹر نے مزاحمتی قوتوں کی میزائل طاقت بڑھانے میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کے کردار کے ساتھ ساتھ ایرانی جوابی آپریشن کی نوعیت کی طرف اشارہ کیا۔
لبنانی اخبار الاخبار کے چیف ایڈیٹر ابراہیم الامین نے المیادین چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے تاکید کی کہ دمشق میں اپنے قونصل خانے کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت پر ایران کے رد عمل میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ آپریشن تل ابیب کے خلاف جاری جنگ کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شہید سلیمانی نے امریکی اور صیہونی بالادستی کے ساتھ کیا کیا؟معروف عرب تجزیہ کار کی زبانی
انہوں نے مزید کہا کہ اس آپریشن کے ذریعے یہ اعلان کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان مساوات قائم ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر شہید محمد رضا زاہدی کو مشترکہ آپریشن روم کے ستونوں میں سے ایک کے طور پر جانتے تھے جو مختلف محاذوں کا انتظام کر رہے تھے، صیہونیوں کے لیے ان کا قتل حماس یا حزب اللہ کے کمانڈروں میں سے کسی ایک کے قتل جیسا تھا۔
الامین نے واضح کیا کہ ایران کے اندر سے یہ حملہ اس لیے کیا گیا تاکہ صیہونی سمجھ سکیں کہ ایران تنازع میں داخل ہو سکتا ہے اور یہ ملک موجودہ جنگ کا حصہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طوفان الاقصی کے حوالے سے میں یہ ضرور کہوں گا کہ صہیونی اس آپریشن کو ایران، حماس اور حزب اللہ کی افواج کے درمیان تعاون اور تربیت کا نتیجہ سمجھتے ہیں، 7 اکتوبر کو جو کچھ ہوا اس نے پرانے اس اصول کو توڑ دیا کہ صہیونیوں پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری فلسطینی قوم کی مزاحمت کی قوت تصور سے باہر ہے اور صیہونیوں کے لیے اس جنگ کو جیتنا ناممکن ہے خواہ وہ کتنا ہی تشدد کا استعمال کریں، امریکیوں اور صیہونیوں نے مصر اور قطر پر دباؤ ڈالا کہ حماس کو تل ابیب کی شرائط ماننے پر مجبور کیا جائے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔
الامین نے تاکید کی کہ صیہونی حکومت اور امریکہ کے اندر متحدہ عرب امارات کی حمایت سے قطر کے دشمنوں کا ایک طاقتور دھارا موجود ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قطر نے تحریک حماس پر خاطر خواہ اور ضروری دباؤ نہیں ڈالا ہے اس لیے کہ یہ مسئلہ دوحہ کے لیے نقصان دہ ہے۔
حزب اللہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ لبنان میں امریکی ثالث آموس ہاکسٹین نے محسوس کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے سے پہلے حزب اللہ اپنے حملے بند نہیں کرے گی، غزہ کی پٹی میں جنگ امریکی موقف کی مکمل تبدیلی یا صیہونی حکومت کی کابینہ میں مکمل تبدیلی کے علاوہ نہیں رکے گی۔
الامین نے مزید کہا کہ شہید عماد مغنیہ کا مزاحمتی قوتوں کے ساتھ تعلق فلسطین سے شروع ہوا اور خاص طور پر تحریک فتح سے، شہید جنرل قاسم سلیمانی اور شہید عماد مغنیہ نے مزاحمتی قوتوں کی طاقت کو بڑھانے اور انہیں دنیا کی فوجوں کی طرح میزائلوں کی تیاری کی طرف لے جانے کے لیے کام کیا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کی حمایت میں لبنان میں عمومی فضا ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ غزہ کی جنگ کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ کم ہیں۔
مزید پڑھیں: فلسطین کے لیے جنرل سلیمانی کی گراں قدر خدمات؛ماسکو یونیورسٹی کے پروفیسر کی زبانی
انہوں نے کہا کہ غزہ کی صورتحال سے دنیا کے تمام دھارے متاثر ہوئے ہیں، اگر غزہ کی جنگ نہ ہوتی تو مغربی ممالک میں صیہونیوں کے قریب ہونے کے رجحانات اور عرب اقوام میں تقسیم اس حد تک ظاہر نہ ہوتی۔