سچ خبریں:نیتن یاہو اپنے متعدد عدالتی مقدمات کی کارروائی کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے صیہونی حکومت کی سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنا چاہتے ہیں۔
صیہونی حکومت کے پارلیمانی انتخابات کے خاتمے اور مقبوضہ علاقوں کے مکینوں کی طرف سے انتہا پسند اور بنیاد پرست یہودی اور صیہونی جماعتوں کی وسیع تر حمایت کے ساتھ، صیہونی جماعتوں کے بعض اعلیٰ مذہبی عہدیداران اور رہنما پہلے ہی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اسرائیلی عدلیہ کی طاقت اور دائرہ اختیار کو کم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی جگہ یہودی شریعت کے قوانین پر مبنی عدالت قائم کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں مشرقی بنیاد پرست یہودیوں کے چیف ربی اصحاق یوسف جو "شاص” پارٹی کے روحانی پیشوا کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، کی ہفتہ وار کلاسز کی ایک ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد اسرائیلی میڈیا میں اسے وسیع ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سیشن میں اسحاق یوسف نے صیہونی قوہ عدلیہ پر قوہ مجریہ کی بالادستی کے قانون کی منظوری کی حمایت کرتے ہوئے حکومت اور معاشرے سے متعلق معاملات میں اسرائیلی سپریم کورٹ کی مداخلت کو روکنے کا مطالبہ کیا، اس ویڈیو میں اسحاق یوسف کہتے ہیں کہ ہم ایک قانون بنا رہے ہیں جس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ اسرائیل میں سپریم کورٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ ایک آرتھوڈوکس ملک ہے اصلاح پسند ملک نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، خاص طور پر جب کہ ہمارے پاس ایک ایسی حکومت ہے جس میں Knesset کے 32 ارکان مذہبی اور آرتھوڈوکس جماعتیں ہیں، کون جانتا ہے شاید ہم یہودی شناخت کے قانون میں بھی اصلاح کر سکتے ہیں۔