سچ خبریں: مقبوضہ علاقوں میں ہونے والے ایک سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی، صیہونی حکومت کی اقتصادی صورتحال کو ابتر سمجھتے ہیں۔
صیہونی کان نیٹ ورک کی طرف سے شائع کردہ ایک سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ حصہ لینے والے صہیونیوں میں سے 76 فیصد کا خیال ہے کہ مقبوضہ علاقوں کی اقتصادی صورت حال گزشتہ سال کے دوران ابتر ہوئی ہے۔
اس سروے کے نتائج کے مطابق صرف 12 فیصد شرکاء نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران مقبوضہ علاقوں کی معاشی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اس سوال کے جواب میں کہ وہ صیہونی حکومت کے مستقبل کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں، اس سروے میں شریک تقریباً نصف نے اس بات پر زور دیا کہ وہ مستقبل کے بارے میں مایوسی کا شکار ہیں۔
مزید پڑھیں:
امریکی ایجنسی بلومبرگ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ مقبوضہ علاقوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے انڈیکس میں کمی آئی ہے۔ صہیونی تجزیہ نگار دو مسائل کو اس زوال کا سبب سمجھتے ہیں۔ پہلا، صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات کے خلاف مظاہروں کا پھیلاؤ اور دوسرا، مغربی کنارے میں صیہونی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی کارروائیوں میں اضافہ۔
اس سے پہلے صیہونی حکومت کے سابق اقتصادی عہدیداروں میں سے ایک یول نافع نے اعلان کیا تھا کہ نیتن یاہو کی کابینہ اس حکومت کی معیشت کے حق میں کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔ مقبوضہ علاقوں کے معاشی تجزیہ کاروں نے پہلے خبردار کیا تھا کہ مقبوضہ علاقوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
ابھی کچھ عرصہ قبل سٹارٹ اپ نیشن سنٹرل آرگنائزیشن جو کہ صیہونی حکومت کے اندر ایک ٹیکنالوجی تنظیم سے وابستہ ہے، نے اعلان کیا کہ اس تنظیم کی جانب سے کیے گئے سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ اس دور حکومت میں 70% اسٹارٹ اپ کمپنیاں مقبوضہ علاقوں سے اپنا سرمایہ واپس لینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
اس سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کمپنیوں کے سربراہان اور سرمایہ کاروں کی جانب سے مقبوضہ زمینوں میں رقوم اور مذکورہ کمپنیوں کے پرزے بیرون ملک منتقل کرنے کی کارروائیاں حالیہ مہینوں میں تیز ہوئی ہیں۔