سچ خبریں: تحریک انصار اللہ کے سیاسی دفتر کے ایک رکن نے اعلان کیا ہے کہ یمن امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ایک مکمل جنگ میں ہے اور یہ ممالک اپنی جارحیت کی بھاری قیمت ادا کریں گے۔
المیادین نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق یمن کی انصار اللہ تحریک کے سیاسی دفتر کے سینئر رکن علی القحوم نے کہا ہے کہ یمن امریکہ اور انگلینڈ کے ساتھ ہر طرح سے جنگ میں ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک مختلف طریقوں سے ہمارے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بحیرہ احمر میں امریکہ اور برطانیہ کی حالت زار
المیادین کو انٹرویو دیتے ہوئے القہوم نے کہا کہ یمن کے خلاف جارحیت کے سنگین نتائج ہوں گے اور ہم اس کا سخت جواب دیں گے نیز امریکہ اور انگلینڈ کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ یمن کی خودمختاری اور آزادی ہماری سرخ لکیر ہے اور ہم کسی قسم کی جارحیت کو برداشت نہیں کریں گے نیز یمنی کبھی بھی فلسطینی عوام کی مدد سے باز نہیں آئیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس نے تمام یمنی عوام کو متحد کر دیا ہے اور وہ فلسطینی عوام کے دفاع کے لیے لاکھوں کی تعداد میں مظاہروں میں شریک ہیں، دریں اثناء عرب اور اسلامی اقوام کے خلاف دشمنوں کی ایک بڑی سازش ہے ، یمن کے عوام اس سازش کی شدت سے واقف ہیں۔
اس یمنی عہدیدار نے سعودی عرب کے ساتھ امن مذاکرات کے بارے میں کہا کہ یہ مذاکرات امن تک پہنچنے کے لیے جنگ بندی، ناکہ بندی اٹھانے، انسانی بنیادوں پر مقدمات کو مکمل کرنے، غیر ملکی افواج کے انخلاء، اقتصادی حالات سے نمٹنے اور تعمیر نو کے لیے تیز رفتاری سے جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امن کے دروازے کھلے ہیں اور امن کے لیے ہمارے ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں ، ہماری ترجیح جنگ کے نتائج سے پوری طرح نمٹنا ہے۔
علی القحوم نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ سعودی عرب اس عمل میں قدرے تاخیر کر رہا ہے، کہا کہ اس کی وجہ ریاض پر امریکہ کا واضح دباؤ ہے۔ کیونکہ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ امن قائم ہو، ہم سعودیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھائیں اور امن تک پہنچیںکیونکہ امریکی چاہتے ہیں کہ سعودی عرب یمن کے مسئلے میں الجھا رہے۔
قبل ازیں انصار اللہ کے ترجمان محمد عبدالسلام نے اعلان کیا تھا کہ غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کے خاتمے کے بعد ہی بحیرہ احمر میں آپریشن روک دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: یمن نے کن ممالک کو دشمن ممالک کی فہرست میں ڈالا ہے؟
انہوں نے کہا کہ اگر غزہ پر اسرائیل کی جارحیت رک جاتی ہے اور انسانی امداد غزہ میں داخل ہوتی ہے تو ہم بھی صورتحال کے بارے میں اپنے جائزے پر نظر ثانی کریں گے۔