سچ خبریں:جہاں ایک طرف پوری دنیاکوویڈ 19 وبا کا مقابلہ کررہی ہے وہیں افغانستان کے طبی نظام اور اسپتالوں کی حالت اس حد تک خراب ہے کہ بہت سے طبی مراکز بند ہوچکے ہیں اور جو کام کر رہے ہیں ان کے عملے کو کئی مہینوں سے تنخوا ہیں نہیں ملی ہیں۔
فرانسیسی اخبار لی پین کی رپورٹ کے مطابق ایسے وقت میں جب دنیا کورونا وائرس اور اس کے نئے تناؤ پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ، افغانستان کا طبی نظام افسوسناک اور تباہی کے دہانے پرپہنچ چکا ہے۔
فرانسیسی اخبارنے مزید لکھا ہے کہ کابل میں کورونا مریضوں کے مرکزی اسپتال میں مالی حالت ہے کہ وہ صرف چند ہفتوں تک ہی اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے،افغان-جاپانی ڈاکٹر فریبا عزیزی نے خبردار کیا ہے کہ شاید مزید ایک مہینے تک ہم کرونا کے مریضوں اور یہاں تک کہ طبی عملے کے لیے کچھ نہیں کر پائیں گے۔
درایں اثناقندھار کے ایک ہسپتال میں بچوں کے وارڈ کے سربراہ محمد صدیق نے کہا کہ ہمیں طبی آلات اور سامان کی اشد ضرورت ہے نیز ہمیں فوری طور پر کم از کم دوگنی ادویات اور طبی عملے کی ضرورت ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز نے بھی اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں 2 ہزار سے زائد صحت کے مراکز بند ہو چکے ہیں اور تقریبا23000 ملازمین بشمول 7000 خواتین ، فی الحال یا تو کام پر نہیں ہیں یا انھیں تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں ۔
افغان صحت کے نظام میں اس افسوسناک صورتحال کی جڑوں کا حوالہ دیتے ہوئے لوپین نے مزید لکھا ہے کہ افغانستان کی یہ صورتحال اس ملک کے لیےبین الاقوامی مالی امداد اور بیرون ملک بالخصوص واشنگٹن میں اس کے اثاثوں کی بندش کی وجہ سے ہے جس کے نتیجہ میں افغانستان کی معیشت جمود کا شکار ہے۔
فرانس ریڈیوکے مطابق طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ بعد بھی طالبان کی عبوری حکومت نے خاص طور پر ملک کے معاشی بحران کے پیش نظر ابھی تک کسی خاص منصوبے کا اعلان نہیں کیا ۔
واضح رہے کہ طالبان کی عبوری حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عالمی بینک نے افغانستان کو دی جانے والی فنڈنگ معطل کر دی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ واشنگٹن میں قائم بین الاقوامی ادارہ افغانستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔