سچ خبریں:عبدالباری عطوان نے صیہونی حکومت کے ہاتھوں اردن کے ایک پارلیمانی نمائندے کی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے دونوں فریقوں کے درمیان ایک غیر معمولی بحران کے وقوع پذیر ہونے اور تل ابیب کے خلاف اردنیوں کی طرف سے فوجی ردعمل کے امکان کے بارے میں لکھا ہے۔
عرب دنیا کے ممتاز تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے رائے الیوم اخبار میں اردن اور صیہونی حکومت کے درمیان بحران کے بارے میں اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ ہماری تمام ملاقاتوں میں تین اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا،سب سے پہلے، اردن کو اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی کے حوالے سے سب سے طاقتور عرب ملک تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ تقریباً 600 کلومیٹر سرحد کے ساتھ اس سے صیہونی حکومت کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
دوسرا یقینی مسئلہ ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور اردن میں ایرانی سیاحت کو فعال کرنا ہے تاکہ الکراک کے علاقے میں شیعہ بزرگوں کے مزارات کی زیارت کی جاسکے،تیسرا، ایک پڑوسی ملک کی حیثیت سے شام کے ساتھ جلد از جلد تعلقات کی بحالی کیونکہ دیگر عرب ممالک اس مسئلے کی تلاش میں ہیں اور اس سے فرار کی کوئی صورت نہیں ہے۔
اس تجزیے میں کہا گیا ہے کہ اردنی پارلیمنٹ کے نمائندے عماد العدوان کو گرفتار کرنے کے بعد صیہونی غاصب حکومت نے متضاد سرکاری بیانات میں اعلان کیا کہ اس نے اس نمائندے کو اس وقت گرفتار کیا جب ان کے پاس تین تھیلے تھے جن میں 15 ریوالور، 12 گولیاں اور 100 کلو سونا تھا،اس خبر کے بعد اس نے ایک ویڈیو بھی شائع کی جس میں ہتھیار موجود تھے لیکن سونا نہیں تھا۔
یہ مسئلہ عید الفطر کی تعطیلات کے دوران کافی ہاؤسز اور دیگر حلقوں میں اردنی اجتماعات کا چرچا بن گیا ہے،اردنی ایک دوسرے سے اس واقعے کی تفصیلات اور ہتھیاروں اور سونے کی سمگلنگ اور اس کہانی کے اختتام کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ عدوان قبیلہ، جس سے متذکرہ اردنی نمائندہ کا تعلق ہے، غور اردن کی بیشتر زمینوں کا مالک ہے اور اسے اس ملک کے سب سے زیادہ جنگجو اور محب وطن قبائل میں شمار کیا جاتا ہے،اس تجزیے میں لکھا گیا ہے کہ اس قبیلے کے ارکان کی اکثریت مسلح ہے اور مقبوضہ فلسطین کی مشرقی سرحدوں پر رہتی ہے،اس وقت وہ غیر معمولی چوکس ہیں اور انہوں نے ایسے بیانات جاری کیے ہیں جن میں انہوں نے اردن کے حکمرانوں اور قابض حکومت کے رہنماؤں کو اردن کے نمائندے کو کسی قسم کے نقصان پہنچانے اور اسے جلد از جلد رہا نہ کرنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ موجودہ حالات میں عماد العدوان نہ صرف اپنے قبیلے کے لیے، جس کے لاکھوں ارکان ہیں، بلکہ تمام اردنی قبائل اور اس ملک کے مختلف گروہوں اور نسلوں کے شہریوں کے لیے بھی قومی ہیرو بن چکے ہیں،عدوان کا ان ہتھیاروں اور سونے کی منتقلی کا مقصد انہیں مغربی کنارے اور 1948 میں مقبوضہ دیگر علاقوں میں فلسطینی مزاحمت کاروں تک پہنچانا ہے جسے ایک عظیم قومی کاروائی تصور کیا جاتا ہے۔
اس تجزیے کے مطابق زیادہ تر اردنیوں کا خیال ہے کہ عدوان ایک بہادر قومی ہیرو ہے، رائے الیوم کے ساتھ بات چیت میں اردن کے ایک اعلیٰ سطحی عہدیدار نے اس بات پر زور دیا کہ بعید نہیں ہے کہ عدوان کی جانب سے ان ہتھیاروں اور سونے کی انیٹوں کو منتقل کرنے کی کوشش میں اردنی حکومت کی طرف سے صیہونیوں کو بالواسطہ پیغام ہو کہ یہ ہم ہی ہیں جو آپ کی سرحدوں کی حمایت کرتے ہیں اور اسمگلنگ کو روکتے ہیں، اگر آپ ہمیں اشتعال دلانا اور مسجد اقصیٰ پر حملہ کرنا بند نہیں کرتے تو آپ کی جارحیت کی طرح یہ امور اردنی عوام کے ہاتھ لگ جائیں گے تو وہ آپ کے ساتھ اس طرح سے پیش آئیں گے اور آپ کے ساتھ ایسا سلوک کریں گے جو آپ کی سمجھ میں آتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اردن اور اسرائیل کے درمیان سکیورٹی کوآرڈینیشن ایک ماہ قبل سے بند ہے اور اردنی فریق کی درخواست پر اس حوالے سے مشترکہ دو طرفہ کمیٹیوں کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔