سچ خبریں:انسانی ہمدردی کے امور میں سرگرم ایک امریکی سماجی کارکن نے ایک معنی خیز ٹویٹ میں یوکرین میں وائٹ ہاؤس کی گرمجوشی کی پالیسیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا کہ بائیڈن انتظامیہ یوکرین میں افغانستان کے منظر نامے کو دہرانے کی کوشش کر رہی ہے۔
انسانی ہمدردی کے امور میں سرگرم ایک ممتاز امریکی سماجی کارکن نے ایک معنی خیز ٹویٹ میں یوکرین میں وائٹ ہاؤس کی گرمجوشی کی پالیسیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا کہ جو بائیڈن یوکرین میں افغانستان کے منظر نامے کو دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رشیا ٹوڈے نیوز سائٹ نے اپنی ایک رپورٹ لکھا کہ امریکہ میں انسانی حقوق کے ایک کارکن Ajamo Barke نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک تجزیے میں روس کے خلاف یوکرین میں بائیڈن انتظامیہ کی گرمجوشی کی پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے یاد دلایا کہ ایک بار پھر بائیڈن افراتفری کے ماڈل کو دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یوکرین میں افراتفری افغانستان کے منظر نامے جیسی ہے۔
اس سماجی کارکن نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ بائیڈن حکومت پہلے چاہتی تھی کہ یوکرین منسک معاہدوں سے دستبردار ہو جائے نیز جزیرہ نما کریمیا اور ڈون باس کے علاقے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فوجی حکمت عملی کی طرف گامزن ہو لیکن اب بائیڈن حکومت اس ملک میں افغانستان کے منظرنامہ پر عمل درآمد کے لیے بنیاد رکھ رہی ہے۔
اس خبر کے مطابق انسانی حقوق کے اس کارکن کا معنی خیز ٹویٹ امریکی اخبار پولیٹیکو کے اس کالم کے جواب میں ہے جس میں حال ہی میں ایک سرخی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ واشنگٹن نے یوکرین کو ایک خفیہ خط بھیج کر حد سے زیادہ آگے بڑھنے اور لالچ کے خلاف خبردار کیا ہے، پولیٹیکو نیوز آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کو بھی 2021 میں کابل کے سقوط سے کچھ دیر پہلے ایک ایسا ہی خط موصول ہوا تھا۔