(سچ خبریں) امریکا وہ ملک ہے جس نے دنیا بھر میں کروڑوں بے گناہوں کو اپنی دشہت گردی کا شکار بنایا اور ان کا قتل عام کردیا لیکن اس کی بے شرمی کی یہ انتہا ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا جھوٹا ڈھونگ رچا رہا ہے اور جس ملک پر چاہے دہشت گردی کا الزام لگا کر حملہ کردیتا ہے اور خطرناک قسم کی دہشت گردی شروع کردیتا ہے لیکن دنیا اس کے اس مظالم کے سامنے بالکل خاموش ہے۔
امریکا کے صدر جوبائیڈن نے سلطنت عثمانیہ کے عہد میں آرمینیا کے باشندوں کے قتل عام کو نسل کشی تسلیم کرلیا ہے، ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اسے ترکی کے معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں تاریخ کے معاملات مورخین کے لیے چھوڑ دینے چاہئیں۔
مغربی دنیا سلطنت عثمانیہ کے دور میں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے ترکی کو دبائو میں لانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، چناں چہ مغربی ذرائع ابلاغ میں وقتاً فوقتاً اس حوالے سے پروپیگنڈا ہوتا رہتا ہے، اس پروپیگنڈے کا مقصد ترکوں ہی کو نہیں مسلمانوں اور اسلام کو خون آشام ثابت کرنا ہوتا ہے۔
انسانی تاریخ خون آشامی اور قتل و غارت گری سے بھری ہوئی ہے مگر مغرب کی خون آشامی، قتل و غارت گری اور نسل کشی کا مقابلہ مسلمان کیا دنیا کی کوئی بھی قوم نہیں کرسکتی۔
امریکا نے آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو نسل کشی تسلیم کرلیا کہ اچھا کیا مگر امریکا یہ تو بتائے کہ وہ ریڈ انڈینز کی نسل کشی کو کب نسل کشی تسلیم کرے گا۔
آرمینیائی باشندوں کے قتل عام میں ایک اندازے کے مطابق سینکڑوں یا زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو ہزار لوگ قتل ہوئے ہوں گے مگر سفید فاموں نے تو امریکا میں آٹھ سے دس کروڑ ریڈ انڈینز کو مار ڈالا، امریکا سفید فاموں کا ملک نہیں تھا، اریکا ریڈ انڈینز کا ملک تھا مگر سفید فاموں نے نہ صرف یہ کہ ریڈ انڈینز کی نسل ختم کردی بلکہ امریکا پر بھی قبضہ کرلیا۔
المناک بات یہ ہے کہ امریکا کے سفید فاموں نے آج تک ریڈ انڈینز کی نسل کشی کو نسل کشی تسلیم نہیں کیا، سفید فاموں نے اس سلسلے میں آج تک ریڈ انڈینز سے معافی بھی نہیں مانگی اور نہ ہی ریڈ انڈینز کو جرمانہ ادا کیا، سفید فام امریکی پورے امریکا پر قابض ہیں اور ان کے امریکا میں بچے کھچے ریڈ انڈینز کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
مغرب کے سفید فاموں نے صرف امریکا ہی میں نسل کشی کی واردات نہیں کی، انہوں نے براعظم آسٹریلیا پر بھی قبضہ کرلیا اور آسٹریلیا کے اصل باشندوں ایب اوریجنلز کی نسل کشی کر ڈالی، ایک اندازے کے مطابق سفید فاموں نے آسٹریلیا میں 40 لاکھ ایب اوریجنلز کو قتل کیا۔
بدقسمتی سے ایب اوریجنلز کی نسل کشی کو بھی اہل مغرب نے آج تک نسل کشی تسلیم نہیں کیا۔ جدید امریکا کی پوری تاریخ بھی خون آشامی، قتل و غارت گری اور نسل کشی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ امریکا نے کوریا کی جنگ میں 30 لاکھ کوریائی باشندوں کو موت کی نیند سلایا، ویتنام میں اس نے پندرہ سے بیس لاکھ لوگ مار ڈالے۔
امریکا دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت تھا اور امریکا پہلا ملک ہے جس نے جاپان میں ایک نہیں دو ایٹم بم استعمال کیے۔ ان ایٹم بموں سے ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد ہلاک ہوگئے، امریکی کہتے ہیں کہ ایٹم بموں کے استعمال کی وجہ سے جاپانی فوجوں نے بروقت ہتھیار ڈال دیے، مگر اب اس بات کی شہادت موجود ہے کہ امریکا جھوٹ بولتا ہے، جاپانی فوجی شکست کھا چکے تھے اور وہ امریکی فوجوں کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی والے تھے، امریکی فوج نے اس سلسلے میں جاپانیوں کے پیغامات پکڑ لیے تھے، چناں چہ امریکی چاہتے تو ایٹم بم کے استعمال سے گریز کرسکتے تھے مگر انہوں نے پوری دنیا کو خوف زدہ کرنے کے لیے ایٹم بم استعمال کیے۔
امریکا نے آج تک دو ایٹم بموں سے ہونے والی ہلاکتوں کو نسل کشی تسلیم نہیں کیا، اور نہ ہی امریکا نے آج تک اس سلسلے میں جاپان سے معافی مانگی ہے، امریکا نے نائن الیون کے بعد کسی ٹھوس جواز کے بغیر افغانستان اور عراق کے خلاف جارحیت کی اور 20 برسوں میں ان ممالک میں پندرہ سے سولہ لاکھ مسلمانوں کو قتل کر ڈالا۔
اس قتل عام کو بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں نے آج تک قتل عام یا نسل کشی تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی مغرب نے اس سلسلے میں افغانستان اور عراق کے لوگوں سے معافی مانگی، امریکا اور مغربی دنیا کی سفاکی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے 1990ء کی دہائی میں عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔
ان پابندیوں سے عراق میں غذا اور دوائوں کی قلت ہوگئی اور غذا اور دوائوں کی قلت سے 10 لاکھ عراقی ہلاک ہوگئے، ہلاک ہونے والوں میں پانچ لاکھ عراقی بچے بھی شامل تھے۔
امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈیلن آبرائٹ سے جب مغرب کے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ اس انسانی جانوں کے اتلاف پر کیا کہتی ہیں تو امریکا کی سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ اتلاف ہمارے لیے قابل قبول ہے اور اس کی ایک قدر و قیمت ہے۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ دو عالمی جنگیں مسلمانوں نے ایجاد نہیں کیں تھیں، یہ جنگیں مغرب کی ایجاد کی ہوئی تھیں، ان جنگوں میں دس کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ ماہرین کے مطابق جنگ میں ایک فرد مرتا ہے تو تین زخمی ہوتے ہیں۔
اس اصول کی رو سے دو عالمی جنگوں میں 10 کروڑ افراد ہلاک ہوئے تو 30 کروڑ انسان زخمی ہوئے۔ مگر اہل مغرب نے آج تک پوری انسانیت کی اس نسل کشی کو بھی نسل کشی تسلیم کیا نہ کبھی اس پر انسانیت سے اس سلسلے میں معافی مانگی۔
مغرب کتنا جنگ پسند ہے اس کا اندازہ مغرب کے ممتاز دانش ور اور ماہر نفسیات ایرک فرام کی ایک کتاب سے ہوتا ہے، ایرک فرام نے اس کتاب میں اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ مغرب نے گزشتہ پونے پانچ سو برسوں میں 2600 سے زیادہ چھوٹی بڑی جنگیں لڑی ہیں۔
ایرک فرام نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ قدیم انسان اپنے دفاع کے لیے دوسرے انسانوں کو مارتا تھا مگر ایرک فرام نے لکھا ہے کہ مغرب کا جدید انسان دوسرے انسانوں کو ایک کھیل کے طور پر مارتا ہے، مغرب نے اپنی اس خون آشامی اور جنگ پسندی پر بھی آج تک پوری انسانیت سے معافی نہیں مانگی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکا کی معیشت جنگی ہتھیاروں پر کھڑی ہے۔ چناں چہ یہ خیال عام ہے کہ گزشتہ چالیس پچاس سال میں جتنی جنگیں ہوئی ہیں وہ امریکا کے اسلحہ سازوں کی سازشوں کا نتیجہ تھیں، ان جنگوں کے ذریعے امریکاکا اسلحہ خوب فروخت ہوا۔ دنیا میں جنگیں اور قوموں کے درمیان آویزش نہ ہو تو امریکا اور یورپ کی اسلحہ ساز فیکٹریاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں، اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب کے لیے امن سے بڑا خطرہ اور جنگ سے بڑا مفاد کوئی نہیں ہے، مگر مغربی دنیا نے آج تک اپنی اس شیطنت پر انسانیت سے معافی مانگی نہ اس سلسلے میں ندامت کا اظہار کیا۔
مغرب صرف انسانوں کے جسمانی قتل عام ہی میں ملوث نہیں وہ قوموں کی سیاسی اور معاشی نسل کشی بھی کررہا ہے، مغرب خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتا ہے مگر الجزائر میں اسلامی فرنٹ انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت لے کر کامیاب ہوا تو مغرب نے الجزائر کے جرنیلوں کے ساتھ مل کر اسلامی فرنٹ کی جمہوری کامیابی کو سبوتاژ کردیا۔
فلسطین میں حماس انتخابات میں کامیاب ہوئی تو مغرب نے حماس کی حکومت کو تسلیم کرکے نہ دیا، ترکی میں نجم الدین اربکان نے حکومت بنائی تو مغرب نے ایک سال میں ان کی حکومت کو گروا دیا، مصر میں صدر مرسی کامیاب ہوئے تو ان کے خلاف مصر کی فوج کو کھڑا کردیا گیا اور ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوگئی۔
مغرب کے مالیاتی ادارے کہنے کو قرض دینے والے ادارے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک اپنی اصل میں استعماری ادارے ہیں، ان کے ذریعے غریب قوموں کی معاشی خود مختاری اور معاشی آزادی کے خلاف سازش کی جاتی ہے۔
چناں چہ یہ محض اتفاق نہیں کہ اس وقت دنیا کے کمزور ملک مغرب کے چار ہزار ارب ڈالر کے قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں، آئی ایم ایف دنیا کی 75 معیشتوں کو دیکھتا ہے اور ان میں کوئی معیشت بھی صحت مند نہیں ہے۔
پاکستان مغرب کے مالیاتی قرضوں میں اس حد تک جکڑا جاچکا ہے کہ اب ہمارے بجٹ کا نصف غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہوجاتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ مغرب نے آج تک قوموں کے معاشی اور مالیاتی قتل عام پر کسی بھی قوم سے معافی نہیں مانگی، آخر مغرب اپنے جرم نسل کشی کو کب تسلیم کرے گا۔