(سچ خبریں) آج ملک بھر میں ریاستی سطح پر یوم استحصالِ کشمیر منایا جا رہا ہے جس کا مقصد اقوام ِ عالم کو یہ باور کرانا ہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت نے یکطرفہ اقدام کرتے ہوئے غیر قانونی طریقے سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور وہاں بدترین مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کشمیری عوام کا بیرونی دنیا سے رابطہ ختم کردیا اور وادی کو دنیا کے بڑے جیل خانہ میں تبدیل کر دیا۔
یوں تو گذشتہ پونے دوصدیوں سے کشمیریوں پر مشق ستم جاری ہے لیکن جنت نظیر وادی کشمیر گذشتہ 73سالوں سے لہو لہان ہے، بھارتی ظلم و جبر کا شکار نہتے کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں یرغمال ہیں اور اپنی آزادی و بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان 73سالوں میں نہ تو کشمیریوں کا مورال کمزور ہوا نہ ہی پاکستان سے محبت کم ہوئی، آزادی کے متوالے نہتے کشمیری گذشتہ دو سالوں سے تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم جبراََ نظر بند ہیں، وادی کا دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔
آج 5 اگست ہے،دو سال قبل آج ہی کے دن بھارت نے کشمیر میں آرٹیکل 35 اے اور 370 کا خاتمہ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور اسے بھارت کا حصہ قرار دے دیا، ا ن دو مخصوص آرٹیکلز سے واضح تھا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، کشمیر کا خصوصی قانون ہوگااور ان پر بھارت کا آئین لاگو نہیں ہوگا، بھارتی شہری کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے تھے ،کشمیر کے لیے علیحدہ بنیادی حقوق ہیں لیکن اس کا خاتمہ کرکے بھارت نے کشمیر سے خصوصی حیثیت چھین لی، جموں وکشمیرکا کنٹرول بھارت کے وفاق یعنی نئی دہلی کو دے دیا گیا۔
اس ریاستی دہشت گردی پر کشمیری ردعمل سے بچنے کے لیے بھارت نے نہتے کشمیریوں اور کشمیری قیادت کو نظربند کر دیا، ان سے تمام تر بنیادی سہولیات چھین لیں تاکہ کشمیریوں کی آواز کودبایاجاسکے اور بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے نہ آئے کہ وہ کس طرح کشمیر میں ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی پامالی کر رہا ہے۔ آج کا دن کشمیر اور پاکستان کے لیے بھی سیاہ ترین دن ہے، کشمیریوں کیلئے اس لیئے کہ ان کے حق کا قتل عام کیا گیا اور پاکستان کے لیے اس لیے کہ گذشتہ 73سالوں سے پاکستان کا دعویٰ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے آزادی کے وقت کشمیر نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا اس لیے کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور بھارت نے اپنی فوج بھیج کر جبراََکشمیر پر قبضہ کیا ہے۔
پاکستان کشمیر کے لیے بھارت سے تین جنگیں لڑ چکا ہے اور اس کا خمیازہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں بھگتنا پڑا، 5 اگست 2019ء میں ہندوتوا کے نظریے پر عمل پیرا فاشسٹ نریندرا مودی سرکار نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے تحت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھارت کے آئین سے ختم کر دیا، جس پرحکومت پاکستان نے گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی بھارت کے ظلم و جبر کے خلاف 5 اگست 2021 کو ملک بھر میں یوم استحصال منانے کا اعلان کیاہے تاکہ عالمی برادری کی توجہ مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر ہونے والے ظلم وبربریت پر مبذول کرائی جاسکے آئیے ذراتاریخ کے اوراق پلٹ کردیکھتے ہیں کہ کشمیری کب سے ظلم وزیادتی اور استحصال کاشکار ہیں،آج سے پونے دو سو سال قبل تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا جس کی کوئی اور مثال ملنا مشکل ہے، 25 لاکھ آبادی اور دو لاکھ 18 ہزار مربع کلومیٹر پر مبنی علاقہ فروخت کر دیا گیا، 1846ء میں بھارت میں کشمیر کو بدنامِ زمانہ معاہدہ امرتسر کے تحت 75 لاکھ روپے کے عوض انگریزوں نے کشمیر کی 25 لاکھ آبادی(تین روپیہ فی کس کے حساب سے)اور دو لاکھ 18 ہزار مربع کلومیٹر رقبے کو جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ ڈالا۔
اسی واقعے کے بعد کشمیر پر ڈوگرہ راج قائم ہوا، اس معاہدے کے ٹھیک ایک سو سال بعد 1946ء کو کشمیر کے قدآور سیاسی رہنما شیخ محمد عبداللہ نے برصغیر کی بدلتی صورت حال اور دوسری جنگ عظیم سے برطانیہ کے عالمی اقتدار پر پڑنے والے منفی اثرات کو بھانپتے ہوئے کشمیر چھوڑ دو تحریک شروع کر دی۔شیخ عبداللہ نے پورے کشمیر میں جوش اور ولولہ پیدا کردیا۔
ایک تقریر میں انہوں نے کہا، ہم ایک ایک روپیہ اکٹھا کر لیں گے اور اس طرح سے 75 لاکھ روپے کی وہ رقم مہاراجہ ہری سنگھ کو واپس کریں گے جس کے عوض ان کے پردادا مہاراجہ گلاب سنگھ نے آج سے ٹھیک ایک سو سال پہلے کشمیر کو خرید لیا تھا۔
شیخ عبداللہ کو ایک ایک روپیہ جمع کرنے کی ضرورت نہیں پڑی، جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کو بھارت سے جانا پڑا اسی طرح مہاراجہ ہری سنگھ بھی چلتے بنے۔
1947ء میں ہندوستان تقسیم ہوا اوردو ملکوں بھارت اورپاکستان نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی، لیکن مہاراجہ ہری سنگھ سے جعلی دستاویز کے ذریعے بھارت نے کشمیرمیں فوجیں داخل کرکے کشمیرپرزبردستی قبضہ کرلیا۔
کشمیر میں ڈوگرہ راج تو ختم ہوگیالیکن افسوس صدیوں سے غلام کشمیریوں کوآج تک آزادی نصیب نہ ہوئی، 1947ء میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے زبردستی الحاق کووہاں کی عوام نے پسند نہ کیا اور کشمیریوں نے پاکستان سے الحاق کااعلان کردیا جس پرمکار بھارتیوں نے شیخ عبداللہ کولالچ دیکراپنے ساتھ ملالیا،شیخ عبداللہ نے کشمیر کی عوام کو پیٹھ میں چھرا گھونپا، جس پر کشمیرکی عوام نے آزادی حاصل کرنے کیلئے ہتھیاراٹھالئے اور1948ء میں مجاہدین نے بھارتی قابض افواج سے کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کرالیا جو اس وقت پاکستان میں شامل ہے جسے آزاد جموں و کشمیر کہتے ہیں لیکن آج بھی کشمیر کے زیادہ حصے پر بھارت غیرقانونی قابض ہے، بھارت کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا، پاکستانی اور بھارتی مندوبین کے موقف کی تفصیلی سماعت کے بعد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن نے 5 جنوری 1949 کو مسئلہ کشمیر پر اپنی جامع قرارداد منظور کی جسے بھارت اور پاکستان نے اتفاق رائے سے قبول کیا۔
اس قرار داد کی رو سے دونوں ممالک کو پابند کیاگیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر میں جنگ بندی کا اہتمام کریں ، افواج اور بر سرپیکار رضا کاروں کا انخلا ء کریں اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کافیصلہ کرنے کے لیے مجوزہ کمشنر رائے شماری سے تعاون کریں تا کہ ریاست میں جلد از جلد کمیشن آزادانہ رائے شماری کا انعقاد کر سکے ۔جنگ بندی کے عمل کو مانیٹر کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کی منظوری سے مبصرین تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
قبل ازیں 13اگست1948 کو بھی اس مسئلے کے حوالے سے ایک قرار داد منظور کی گئی ۔جس میں فی الفور سیز فائر کا مطالبہ کیا گیا اور یہ بھی قراردیا گیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی سے کیاجائے گا جس کا اظہار وہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کے ذریعے کریں گے۔ یہ دونوں قراردادیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک ایسا مضبوط اور ٹھوس حوالہ ہیں جسے نہ عالمی برادری نظر انداز کر سکتی ہے نہ بھارت اپنی جان چھڑا سکتا ہے۔
ان قراردادوں پر جزوی طور پر عمل درآمد ہوا یعنی سیز فائر عمل میں آیا ، ناظم رائے شماری کا تقرر ہوا ، اقوام متحدہ کے مبصرین بھی تعینات ہوئے اور پچاس کی دہائی میں رائے شماری کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر کئی کاوشیں ہوئیں جو بد قسمتی سے بھارت کے عدم تعاون کی وجہ سے بار آور ثابت نہ ہو سکیں ۔ کشمیری یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان قراردادوں کی روح کے مطابق ان کے حق خود ارادیت کے حصول کو یقینی بنایا جائے ،یہ قراردادیں کشمیریوں کو بنیادی فریق کا درجہ دیتی ہیں ،اس لیے کہ ان کی رو سے بنیادی فیصلہ کشمیریوں ہی نے کرنا ہے۔
ان قراردادوں کی رو سے مسئلہ کشمیر محض زمین کا جھگڑا نہیں، بلکہ دو کروڑ کشمیریوں کے بنیادی حق کا مسئلہ ہے۔بھارت کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ کشمیری خود یا پاکستان اقوام متحدہ کی ان قراردادوں سے دستبردار ہو جائیں، بھارت شملہ معاہدے کے بعد بین الاقوامی برادری کو یہی باور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ یہ مسئلہ دو طرفہ ہے اور اب یہ قراردادیں غیر متعلق ہو گئی ہیں لیکن پاکستان ہمیشہ کشمیریوں کی تواناآوازبن کراقوام متحدہ میں اوردوسرے انٹرنیشنل فورمزمیں موجودرہااوربھارت کی سازشیں کامیاب نہ ہونے دیں ،شملہ معاہدے کے حوالے سے کشمیریو ں کا موقف واضح ہے کہ اس میں کشمیری فریق نہیں ہیں اور خود اقوام متحدہ کے چارٹر اور1957 کی کشمیر پر اس کی قرارداد میں اس مئوقف کی وضاحت موجود ہے کہ دو طرفہ معاہدہ ریاست کے متنازعہ سٹیٹس کو متاثر نہیں کر سکتا اور شملہ معاہدے میں بھی فریقین نے اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر ہی کو بنیاد قرار دیا۔
شملہ معاہدے کے باوجود 1990 کے بعد تحریک آزادی کے رواں مرحلے کے دورا ن میں O.I.Cسمیت دیگر بین الاقوامی فورمز میں پاکستان کی تحریک پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کے حوالے سے قراردادیں بھی منظور ہو چکی ہیں اور پاکستان نے اپنے موقف کا برملا اظہار بھی کیا ہے۔برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں کی قربانیوں اور استقامت نے ساری دنیا کی رائے عامہ کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
قبل ازیں بھارت یہ واویلا کرتا رہا کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی پاکستان سے دراندازی کا نتیجہ ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد عالمی رائے عامہ کو یہ واضح اور دو ٹوک پیغام پہنچا کہ یہ تحریک کشمیریوں کی اپنے جذبہ آزادی کی تحریک ہے ۔بھارت نے خوف زدہ ہو کر اس تحریک کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ چھ ماہ تک مسلسل کرفیو کا نفاذ بھارتی استعمار کا ایک ایسا سیا ہ باب ہے جس کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
قتل عام و جبر تشدد،ہزاروں کشمیری مائیں، بہنیں بھارتی فوج کی درندگی کا شکارہوئیں اور پیلٹ گنوں کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کو بصارت اور بینائی سے محروم کرنے کے باوجود وہ تحریک کے جوش و جذبے کو ٹھنڈا نہ کر سکا۔آزاد کشمیر اور پاکستان میں عوامی سطح پر اس تحریک کی پشتبانی کے لیے ریلیوں اور مارچوں کے انعقاد کے علاوہ کشمیریوں کے حق میں پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد، پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے دو ٹوک موقف نے کشمیریوں کے حوصلے بلند کیے۔
بالخصوص اقوام متحدہ میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے جامع خطاب سے ایک طرف کشمیریوں کواحساس ہواکہ ہمارے دکھوں کامداواکرنے والاکوئی ہے ،ہم اکیلے نہیں ہیں اور دوسری طربھارت اور عالمی رائے عامہ تک بھی یہ پیغام پہنچا کہ اہل پاکستان اس تحریک سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ جس کے نتیجے میں او آئی سی اور اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا ۔
او آئی سی نے ایک مرتبہ پھر بڑی جامع قرارداد منظور کی ، بین الاقوامی انسانی حقوق کونسل اور او آئی سی نے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کی پیشکش کی جسے بھارت نے مسترد کرتے ہوئے اپنے آپ کو بے نقاب کیا۔اس دبا ؤسے نکلنے کے لیے بھارت نے سیز فائر لائن اور ورکنگ بانڈری پر بلا اشتعال فائرنگ شروع کر دی جس سے درجنوں شہری اور فوجی جوان شہید ہوئے لیکن اس کے باوجود عوام اورپاک فوج بھارتی ہتھکنڈوں سے مرعوب ہونے کے بجائے کشمیریوں کی پشت پر صف بستہ ہوگئے۔
مقبوضہ کشمیر کے 95 لاکھ عوام کو محصور ہوئے دوسال پورے ہوگئے ہیں،دو برس قبل 5 اگست2019ء کو نریندر مودی کی متعصب حکومت نے بھارتی آئین میں متعین مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارت میں ضم کرنے کے لئے تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا کشمیری عوام ان پابندیوں اور مسلسل جبر کے باوجود اپنی جدوجہد اور فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ افسوس ناک یہ امر ہے کہ دنیا جو انسانیت اورانسانی حقوق کا پرچار کرتی ہے، کشمیرپراقوام متحدہ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کرا سکی اور اب تو بھارتی حکومت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کر نے کے لئے متعصب ہندؤوں کو کشمیری شہریت دینا بھی شروع کر دی اور کشمیریوں کی جائیدادیں بھی ہتھیائی جا رہی ہیں۔
بھارت کے غیر انسانی اقدامات کے خلاف دنیا کی توجہ مبذول کرانے کے لئے آج5 اگست کو پاکستان بھر میں خصوصی طور پر یوم استحصال کشمیر منایا جا رہا ہے۔ جس کا مقصدایک بارپھر دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی طرف دلانا ہے تا کہ دنیا کا ضمیر بھی جاگے اورکشمیریوں کی صدیوں سے جاری تاریک رات ختم ہواورآزادی کی صبح طلوع ہو۔