(سچ خبریں) ایک طرف جہاں بھارت میں کورونا وائرس کا شدید قہر جاری ہے وہیں بھارتی جیلوں میں قید کشمیری رہنماؤں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں لیکن بھارتی حکومت کو اس بات کی بالکل بھی پرواہ نہیں ہے اور وہ کشمیری رہنماؤں کو قتل کرنے کا منظم سازش کر رہی ہے۔
جموں کشمیر کی کوٹ بھلوال جیل میں ایک سال سے قید معروف کشمیری حریت پسند رہنما محمد اشرف خان صحرائی گزشتہ ہفتے کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے تھے جس کے بعد اُنہیں جموں کے میڈیکل کالج ہسپتال پہنچایا گیا جہاں منگل کی دوپہر کو اُن کی موت ہو گئی۔
77 برس کے صحرائی کے بیٹے جنید صحرائی نے معاشیات کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر مسلح گروپ حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور گذشتہ برس جنید ایک جھڑپ میں شہید ہو گئے تھے، اس کے فوراً بعد گزشتہ جولائی میں محمد اشرف خان صحرائی کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کیا گیا تھا۔
اشرف صحرائی تقریباً نصف صدی سے جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے اور جماعت کے نہایت مقبول رہنما سید علی شاہ گیلانی کے دست راست تھے، اُن کی وفات سے کشمیری قیدیوں کی سلامتی کے بارے میں تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔
وکلا کی انجمن کشمیر بار ایسوسی ایشن کے اعلیٰ عہدیدار ایڈوکیٹ غلام نبی شاہین نے صحرائی کی موت کو حراستی قتل قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر سے باہر مختلف جیلوں میں قید ہزاروں کشمیریوں کو فوراً وادی میں منتقل کیا جائے۔
سابق حریت رہنما عبدالغنی لون کے بیٹے اور پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے صحرائی کی قید میں موت کو کشمیری سیاست کی ستم ظریفی قرار دیا ہے۔
انہوں نے یکے بعد دیگرے اپنی ٹویٹس میں لکھا کہ ایک لمبا سیاسی کیرئیر اختتام کو پہنچا، وہ جماعت اسلامی کے نظریہ ساز تھے، جب میں 19 سال کا تھا تو اچانک اُن سے سامنا ہوا، انہوں نے مجھے کہا کہ اپنے والد (عبدالغنی لون) سے کہنا کتنے شیریں ہیں لب تیرے، گالیاں کھا کر بے مزہ نہ ہوئے۔
سجاد لون، جو اب ہند نواز سیاست میں سرگرم ہیں، نے مزید لکھا کہ یہ کشمیری سیاست کی ستم ظریفی ہے کہ اعلیٰ پائے کے سیاستدان تنازعے کی بھینٹ چڑھتے ہیں، ایک نہایت دیانتدار سیاستدان دہائیوں تک جیل میں رہا۔
پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی اشرف صحرائی کی وفات پر ٹویٹ میں لکھا کہ انڈین فاشزم کشمریوں کو خاموش نہیں کر سکتی۔
اشرف صحرائی جماعت اسلامی کے ان چند رہنماؤں میں شامل ہیں جنھوں نے کشمیر کی انتخابی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا تاہم موجودہ حالات میں قید کے دوران ان کی موت نے اُن مطالبوں کو تقویت دی ہے جن میں کورونا کے پھیلاوٴ کو دیکھتے ہوئے کشمیری قیدیوں کی سلامتی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ اگست 2019 میں جب مقبوضہ کشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کیا گیا تو تقریباً سبھی علیحدگی پسند رہنماؤں اور اُن کے کارکنوں کو قید کیا گیا، اس سال بہار شروع ہوتے ہی جب بھارت میں کورونا وبا کی دوسری لہر پھیلی تو کشمیر میں علیحدگی پسند رہنماؤں کے اہلخانہ نے مطالبہ کیا کہ قیدیوں کو واپس کشمیر بھیجا جائے۔
اس سلسلے میں جموں کشمیر کی ایک درجن سے زیادہ جیلوں میں قید تقریباً پانچ ہزار کشمیری قیدیوں کے بارے میں تشویش ظاہر کی گئی تاہم جیلوں کے ڈائریکٹر جنرل وی کے سنگھ نے دعویٰ کیا کہ جیلوں میں جگہ کی کمی نہیں اور تمام قیدیوں کو مناسب سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں کشمیر کی 13 جیلوں میں فی الوقت 4550 افراد قید ہیں جن میں اکثر علیحدگی پسندی جھوٹے مقدموں کے الزام میں بھی قید ہیں۔
جموں کی کوٹ بھلوال جیل میں، جہاں اشرف صحرائی قید تھے، 884 جبکہ سرینگر کی سینٹرل جیل میں 612 قیدی ہیں، قریب تین ہزار قیدی جموں، اُدھمپور، کٹھوعہ، بھدرواہ، کشتواڑ، راجوری، بارہمولہ، کپوارہ، اننت ناگ اور پلوامہ کی ضلعی جیلوں میں قید ہیں۔
ڈی جی پرِزنز وے کے سنگھ کے مطابق قیدیوں کے مدافعتی نظام کو تندرست رکھنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں لیکن یہ بالکل جھوٹ اور حقیقت سے بہت دور کی بات ہے کیونکہ کشمیری رہنما جہاں جہاں بھی قید ہیں انہیں کسی قسم کی طبی سہولیات بھی مہیا نہیں کی جارہی ہیں۔
اُدھر نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید شبیر شاہ، یٰسین ملک اور شاہد الاسلام سمیت درجنوں حریت رہنماؤں کے اہلخانہ بار بار حکام سے اپیل کر رہے ہیں کہ اُنہیں واپس وادی منتقل کیا جائے لیکن بھارتی حکومت کا مقصد تمام کشمیری رہنماؤں کو آہستہ آہستہ قتل کرنا ہے جبکہ عالمی برادری اس سلسلے میں بالکل خاموش ہے اور بھارتی حکومت بین الاقوامی قوانین کی کھلے عام دھجیاں اُڑا رہی ہے۔