سچ خبریں:ایک ممتاز عرب تجزیہ کار نے لبنان کے ساتھ سمندری سرحدی حد بندی کے معاملے میں صیہونیوں کی چال بازی اور کھیل کھیلنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ان رویوں کے خلاف مزاحمتی تحریک کے رد عمل کا تجزیہ کیا ہے۔
رائے الیوم اخبار کے ایڈیٹر اور عرب دنیا کے معروف تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے اپنے نئے کالم میں لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان سمندری حد بندی کے معاملے میں حالیہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ صیہونی وزیراعظم یایر لاپد کی عارضی کابینہ نے حد بندی معاہدے کے مسودے میں لبنان کی طرف سے درخواست کی گئی اصلاحات کو مسترد کر دیا جو اس معاملے میں امریکی ایلچی اموس ہاکسٹین نے تیار کیا تھا۔
صیہونیوں کا یہ طرز عمل اس حکومت کی معمول کی حکمت عملی پر مبنی ہے کہ وہ وقت کو خریدنے کے لیے ہتھکنڈوں سے کام لے تاکہ بالآخر لبنانی فریق اسرائیلی حکم کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائے، اس معاملے کو ثابت کرنے والے بہت سے ریکارڈ موجود ہیں، عطوان نے مزید کہا کہ اسرائیل کی سکیورٹی اور سیاسی کابینہ نے جمعرات کو اپنے ہنگامی اجلاس کے بعد حد بندی کے معاہدے اور اس کے حتمی ورژن کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا جب کہ لاپڈ اور صیہونی وزیر جنگ بینی گینٹز حد بندی پر معاہدے پر مذاکرات جاری رکھنا چاہتے ہیں،انہوں نے بھی ڈرامے کرنے کا فیصلہ کیا اور بینی گانٹز نے شمالی علاقے میں اسرائیلی فوج کو تیار سہنے کا حکم دیا۔
عطوان نے مزید لکھا کہ یہ بات واضح ہے کہ حزب اللہ کے ماہرین جو حد بندی کے معاملے میں لبنان اور صیہونی حکومت کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی پیروی کر رہے ہیں، معاہدے کے مسودے میں لبنان کی طرف سے مطلوبہ اصلاحات کے نفاذ پر زور دے رہے ہیں اور لبنانی مذاکرات کار نے لبنانی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے امریکی ایلچی کو اس مسئلے سے آگاہ کیا ہے۔
لہذا، سب جانتے ہیں کہ حزب اللہ اور اس کی قیادت کی منظوری کے بغیر سرحدی معاہدے کا کوئی حتمی ورژن منظور نہیں کیا جائے گا اگر کوئی اس سے ہٹ کر کچھ کہتا ہے تو وہ حزب اللہ یا موجودہ لبنان کو نہیں جانتا۔