سچ خبریں: صیہونی حکومت کے قیام کو سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران فلسطینی عوام نے اپنی آنکھوں سے ایسے جرائم کا مشاہدہ کیا کہ کوئی میڈیا یا کیمرہ ان دل دہلا دینے والے مناظر کو مکمل طور پر ریکارڈ اور محفوظ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
صہیونی جارحیت پسندوں کے خلاف فلسطینیوں کے سب سے اہم کامیاب آپریشن طوفان الاقصی کے آغاز کے ساتھ ہی، اس قابل فخر آپریشن کا سب سے اہم ہدف کئی دہائیوں سے دہشت گردی،قتل و غارت، تباہی، محاصرہ، تشدد اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے شکار فلسطینیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ہے، تاہم جہاں کچھ مغربی اور امریکی ذرائع ابلاغ صیہونیوں اور آبادکاروں کا مظلومانہ چہرہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں فلسطینی قوم کے خلاف صیہونیوں کے بعض جرائم پر ایک نظر ڈالنے سے حق اور باطل کے دو محاذوں کے درمیان تصادم کی حقیقت آشکار ہوتی ہے۔
یوم نکبت سے مظلوم فلسطینی قوم کے خلاف صیہونی جرائم کا آغاز
20 ویں صدی کی 40 ویں دہائی میں انگریزوں کی قیادت میں ایک خوفناک مغربی سازش کی بنیاد پر، فلسطین کو اس کے لوگوں سے، غاصبانہ اور ہتھیاروں، قتل و غارت اور دھوکے کے زور پر ایسے لوگوں کے حوالے کر دیا گیا جو بنیادی طور پر یورپی ممالک سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ یہ زبردست غاصبانہ قبضہ جو شروع میں شہروں اور دیہاتوں میں بے دفاع لوگوں کے بڑے پیمانے پر قتل اور لوگوں کو ان کے گھروں سے ہمسایہ ممالک کی طرف لے جانے کے ساتھ تھا، سات دہائیوں سے زائد عرصے سے اسی جرائم کے ساتھ جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 2022 میں فلسطینیوں کے خلاف صیہونی جرائم کے نئے اعدادوشمار
1948 اور 1950 کے درمیان فلسطین پر صیہونی قبضے کے آغاز کے ساتھ ہی 530 سے زائد فلسطینی قصبے اور دیہات تباہ ہو گئے،ان میں سے بہت سی تباہی اس وجہ سے ہوئی تاکہ بے گھر فلسطینی اپنے گھروں کو واپس نہ جا سکیں، گزشتہ 75 برسوں میں ایک لاکھ سے زائد فلسطینی براہ راست صیہونی گولیوں کا نشانہ بنے اور دس لاکھ افراد کو گرفتار کیا گیا،15 مئی 1948 کو یہودی دہشت گرد گروہوں،جن کی نگرانی اور تربیت برطانویوں نے کی تھی، فلسطینی شہروں اور دیہاتوں پر اپنے وحشیانہ حملے شروع کر دیے جن میں هاگانا، اشترن، پالماخ شامل تھے۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 700000 سے زائد فلسطینی جو فلسطینی آبادی کا تقریباً نصف ہیں، اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے اور 400 سے 600 فلسطینی دیہات مکمل طور پر تباہ ہو گئے،یومِ نقبت کے موقع پر اپنی سرزمین سے بے گھر ہونے والے فلسطینی اردن، مصر، لبنان اور شام جیسے ہمسایہ ممالک میں چلے گئے جو اب بھی پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں اور اپنی واپسی کے دن کا انتظار کر رہے ہیں۔
فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی جرائم کی بلیک لسٹ
20ویں صدی کے آغاز سے غاصب صیہونی حکومت نے اس سرزمین پر بہت سے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ انسانی تاریخ میں نایاب یا منفرد ہیں،صہیونی جرائم اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ دنیا کا میڈیا اس کے ایک چھوٹے سے حصے کو رپورٹ کرنے میں کامیاب رہا جبکہ ان میں سے بہت سے جرائم فلسطینی قوم کے سینے اور اس کی خواتین،مردوں اور بچوں کی تاریخی یادوں میں محفوظ ہیں،لوگوں کے بڑے پیمانے پر قتل اور ان کے گھروں اور کھیتوں کی تباہی نیز مردوں اور عورتوں یہاں تک کہ ان کے بچوں کی گرفتاری اور تشدد سے لے کر اس قوم کی عزت و آبرو سے کھیلنے اور اس کو تباہ و برباد کر کے اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کی،صبرا شتیلا، دیر یاسین فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی جرائم کا صرف ایک حصہ ہے۔
مردوں اور عورتوں کو قتل کرنے سے لے کر حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کرنے تک دیریاسین جرم
9 اپریل کو بیت المقدس کے مغرب میں واقع گاؤں دیر یاسین کے قتل عام کی 75 ویں برسی ہے،شہداء کی تعداد کے مختلف اعدادوشمار ہیں، جن میں 250 سے 360 افراد ہیں، جن میں سے اکثر خواتین اور بچے بھی ہیں، انہیں صہیونیوں نے نہایت بے دردی سے قتل کیا،یہ قتل عام 9 اپریل 1948 کی صبح کے وقت اٹسل اور لیحی کے دہشت گردوں کے ذریعہ کیا گیا تھا جنہیں دہشت گرد تنظیم ہاگانا کی حمایت حاصل تھی، یہ مجرم دستہ بعد میں فوج کا مرکزی حصہ بنا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یہودی دہشت گردوں کا خیال تھا کہ گاؤں کے مکین جن کی تعداد 750 ہے، خوف کے مارے اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، تاہم مکینوں کی مزاحمت کو صہیونیوں نے لاشوں کا ڈھیر لگانے کا بہانہ بنایا، اطلاعات کے مطابق مجرم صہیونیوں نے بعض باشندوں کی لاشوں کو مسخ کیا، حتیٰ کہ جنین کی جنس پر شرط لگانے کے لیے حاملہ خواتین کے پیٹ بھی چاک کر ڈالے،گاؤں کے تقریباً 25 مردوں کو بس میں بٹھا کر بیت المقدس کی سڑکوں پر پھریا اور پھر گولی مار کر قتل کر دیا، صہیونیوں نے شہداء کی لاشوں کو بھی ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر کر کے آگ لگا دی۔
صبرہ اور شتیلا کا جرم
ستمبر 1982 میں صیہونی حکومت نے اپنے سیاہ ریکارڈ میں ایک اور جرم درج کیا،صبرہ اور شتیلا کیمپ جنوبی لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے کل 12 کیمپوں میں سے دو تھے، اس جعلی حکومت نے 16 سے 18 ستمبر 1982 تک ان کیمپوں میں قتل عام شروع کیا جس کے متاثرین کی تعداد دو ہزار سے زائد بتائی گئی،بعض ذرائع نے متاثرین کی تعداد تین سے پانچ ہزار کے درمیان بھی بتائی ہے،اس جرم کا ارتکاب صیہونی فوج نے اس وقت کے صیہونی وزیر جنگ ایریل شیرون اور لبنانی فلانج فورسز کی قیادت میں کیا تھا، مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین، بچے اور بوڑھے تھے۔
2008 کی غزہ جنگ صہیونی جرائم کا ایک سیاہ دھبہ ہے
مظلوم فلسطینی عوام کے قتل عام میں اسرائیل کی ایک اور کارروائی کا تعلق غزہ کے بحران سے ہے، 27 دسمبر 2008 کو غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے فوجی حملے کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی مارے گئے۔
2014 غزہ جنگ
اس جنگ میں صیہونی حکومت نے 50 دنوں تک غزہ پر بے دریغ حملہ کیا اور اس حملے کے دوران 10 ہزار سے زائد افراد زخمی اور 2 ہزار سے زائد شہید ہوئے جن میں 570 سے زائد بچے تھے،اس کے بعد سے غزہ میں مقیم مظلوم عوام شدید محاصرے میں ہیں اور صحت، خوراک، ادویات اور ایندھن کے میدان میں بہت سے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جنگ کی وجہ سے کھنڈرات کے آس پاس رہنے کے علاوہ انفراسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے بجلی کی عدم دستیابی نے اس خطے کے لوگوں خصوصاً خواتین ، بچوں اور بیمار افراد خاص طور پر لاعلاج بیماریوں میں مبتلا افراد کی زندگی کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔
فلسطینی قیدیوں پر تشدد
صیہونی حکومت نے 22 اکتوبر 1986 کو تشدد کے خلاف کنونشن پر دستخط کیے اور 3 اکتوبر 1991 کو اس کی توثیق کی،اس نے کئی دہائیوں سے بارہا اور مسلسل فلسطینی فوجیوں اور شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے،اسرائیلی جیلوں میں تشدد کا ایک عام طریقہ سائے کا طریقہ ہےجو بہت تکلیف دہ ہے،اعداد و شمار کے مطابق 87 فیصد قیدیوں نے اس اذیت کا تجربہ کیا ہے،اس طریقہ کار میں گرفتار شخص کو طویل عرصے تک لٹکایا جاتا ہے۔
فلسطینی بچے جو بچپن نہیں کر سکے
فلسطینی قوم کے ساتھ ہونے والی تاریخ کی ناانصافیوں میں سے ایک صہیونیوں کا بچوں کے خلاف جرم ہے،وہ بچے جنہوں نے صہیونی جارحیت کی وجہ سے اپنے بچپن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور اپنی زندگی میں اپنے والدین کے قتل یا ان کی اسیری اور گھروں نیز اسکولوں کی تباہی کے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھے،ان کے درمیان میں ایسے بچے بھی ہیں جنہوں نے اپنے بچپن میں جیل اور اذیت کا سامنا کیا۔
صیہونیوں کے ہاتھوں فلسطینی شہریوں کا قتل
گذشتہ دو دنوں میں طوفان الاقصی آپریشن کے جواب میں ہمیشہ کی طرح مجاہدین کے خلاف لڑنے کے بجائے صیہونی حکومت نے خواتین اور بچوں کا قتل عام کیا ہے اور رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے۔
مزید پڑھیں: عربوں کے خلاف صیہونی جرائم کی نئی دستاویزات کا انکشاف:عطوان
آخری بات
فلسطینی قوم کے خلاف صہیونی جرائم میں اہم نکتہ مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ اور بعض رجعت پسند عرب ممالک کے رہنماؤں اور فلسطینی کاز کے غداروں کا اس جعلی حکومت کے ساتھ تعاون ہے، صیہونیوں کے بہت سے جرائم میں ان جرائم کی انجام دہی میں عرب حکومتوں یا بعض مغربی ممالک اور امریکہ کا ہاتھ واضح ہے،فوجی اور انٹیلی جنس امداد سے لے کر صہیونیوں کے ہولناک جرائم کے بارے میں بین الاقوامی فورمز پر خاموشی دیکھنے کو ملتی ہے چنانچہ فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اپنی صداقت پر یقین رکھتے ہوئے مغربی ایشیا میں مزاحمتی محاذ کی مدد سے خود کو لیس کیا یہاں تک کہ فلسطینی دفاعی اور فوجی حکمت عملی پتھروں سے لے کر میزائلوں اور ڈرون تک پہنچ گئی ، انہوں نے جارحانہ حکمت عملی کا انتخاب کر کے صہیونی دشمن کو حیران کر دیا،کیونکہ فلسطینیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور وہ القدس اور اپنی پوری سرزمین کی صہیونیوں سے آزادی چاہتے ہیں۔