?️
سچ خبریں:صہیونیوں کے ہاتھوں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے بعد غزہ کی پٹی میں مزاحمت کی جانب سے سخت ردعمل کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن جمعرات کی شام کو شمالی سرحدوں سے ہونے والے حملوں نے تل ابیب کے تمام حسابات بدل کر رکھ دیے۔
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مقبوضہ فلسطین بالخصوص مشرقی القدس کے علاقے میں فلسطینیوں اور صیہونیوں کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر بڑھ گئی ہے،اسرائیلی فوج اور سکیورٹی فورسز نے مسجد اقصیٰ کے صحن میں گھس کر نمازیوں پر آنسو گیس اور صوتی بموں سے حملہ کیا اور بعض فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا نیز یہودی ایسٹر عید کی آمد پر اس مقدس مقام پر انتہاپسند صہیونیوں کے قربانی کرنے کے امکان سے نہ صرف مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کا بلکہ پورے خطے کے مسلمانوں کے غصے کے بھڑکنے کا امکان تیز ہو گیا ہے۔
اس کے علاوہ مزاحمتی فورسز اور اسرائیلی فوج کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے بعد مقبوضہ فلسطین کی شمالی سرحدوں سے اچانک راکٹ حملوں نے صہیونیوں کو حیران کر دیا،مزاحمتی حملوں کے مختلف پہلوؤں اور اس کے ممکنہ ردعمل کا جائزہ لینے کے لیے صیہونی سکیورٹی کابینہ اور اس حکومت کی وزارت جنگ کے اجلاس کے باوجود، اسرائیلی میڈیا اور کمانڈروں نے اس آپریشن کے دوران حزب اللہ کی موجودگی کے مفروضے کو مسترد کرتے ہوئے جنوبی لبنان اور غزہ کی پٹی میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا،ماہرین کا خیال ہے کہ شام کے علاقے مغربی کنارے میں دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کا مقصد بحران کو مقبوضہ علاقوں سے باہر منتقل کرنا اور عدلیہ کے اختیارات کے حوالے سے حکومت کی بغاوت کے خلاف مظاہروں کو کمزور کرنا ہے۔
مسلمانوں کے قبلہ اول کی بے حرمتی
صیہونیوں کی حالیہ دنوں میں سب سے بڑی غلطی مسلمانوں کے قبلہ اول کی بے حرمتی اور مسجد اقصیٰ کے صحن پر حملہ تھا، اس واقعے نے مغربی کنارے کے فلسطینیوں اور صیہونیوں کو سبز روشنی دکھانے والے عربوں کے غصے کو بھڑکا دیا ہے، مقبوضہ بیت المقدس میں جاری مظاہروں اور فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نیز جہاد اسلامی کے حملوں کے علاوہ ام الفہم، شعفات کیمپ اور الجلیل جیسے علاقوں میں نوجوان صہیونی فوج کے ساتھ جھڑپیں بھی کرتے نظر آئے، ان جھڑپوں میں 1948 کی سرزمیںوں کے رہنے والے بہت سے فلسطینیوں اور عربوں کو صیہونی حکومت کی سکیورٹی فورسز نے حملہ کر کے زخمی کر دیا، مسئلہ فلسطین کے ماہرین کے مطابق یہودیوں کی ایسٹر عید کے آغاز کے ساتھ ہی مسلمانوں اور صیہونیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا، ایسٹر کے دوران ایک انتہا پسند گروپ جسے ہیکل یوتھ کہا جاتا ہے، مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور قربانی کرنے کی کوشش کی جو صیہونی حکومت اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کی سطح کو بڑھا سکتا ہے،7 اپریل بروز جمعہ تل ابیب کے قلب میں شہادت طلبانہ کاروائی کے دوران ایک شخص ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے،اس کاروائی کو صیہونیوں کی حالیہ جارحیت کا ردعمل اور مغربی کنارے میں اسرائیلی حکومت کی الحاق کی پالیسیوں کے تسلسل کے حوالے سے ایک سنگین تنبیہ سمجھا جاتا ہے،مسجد اقصیٰ کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی انتہا پسند عناصر اور انتہا پسند صیہونیوں نے مسلمانوں کے اس مقدس مقام پر قدم جمانے اور اس ابراہیمی مقام کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی ہے؛ قبلہ اول کی حرمت کی حفاظت کرنے کے لیے فلسطینی اور مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،حالیہ واقعات میں اہم نکتہ یہ ہے کہ نیتن یاہو حکومت حرم شریف کے تئیں حساسیت سے بخوبی واقف ہے اور جانتی ہے کہ اگر اس مقدس مقام پر حملہ کیا گیا تو فلسطین بھر کے مزاحمتی گروپ اس واقعے پر ردعمل کا اظہار کریں گے۔
شمال جنوبی محاذ پر بیک وقت لڑائی کا ڈراؤنا خواب
صہیونیوں کی طرف سے مسجد الاقصی کی بے حرمتی کے بعد غزہ کی پٹی میں حماس اور جہاد اسلامی کی طرف سے سخت ردعمل کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن جمعرات کی شام کو شمالی سرحدوں سے ہونے والے حملوں نے تل ابیب کے تمام حسابات بدل کر رکھ دیے۔ جنوبی لبنان میں حماس سے وابستہ گروپوں نے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع علاقوں کو نشانہ بنایا، جن میں شلومی، ماتزوفا، هانیتا، آدمیت، علیون و حیلا کی صہیونی بستیوں کو کیٹوشا اور گراڈ راکٹوں سے نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے آئرن ڈوم سسٹم کو فعال کیا گیا، اسی دوران صہیونی ذرائع مقبوضہ علاقوں میں 30 سے زائد راکٹ داغے جانے کی خبریں نشر کر رہے تھے اور 2006 سے اب تک ان راکٹ حملوں کے پیمانے کو بے مثال قرار دے رہے تھے، اس غیر معمولی حملے کے بعد اسرائیلی میڈیا جیسے دی ٹائمز آف اسرائیل ،یروشلم پوسٹ یا صیہونی حکومت کے چینل 12 نے ان حملوں کو حزب اللہ سے منسوب کرکے رائے عامہ کو ممکنہ ردعمل کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی، تاہم ایسا لگتا ہے کہ شمال اور جنوبی محاذ پر بیک وقت لڑائی کے ڈراؤنے خواب کی وجہ سے صہیونی فوجی حکام نے حماس پر الزام کی انگلی اٹھاتے ہوئے حزب اللہ کے ساتھ تصادم سے گریز کیا اور جنوبی لبنان کے تین مقامات کو کم سے کم نقصان کے ساتھ نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اسرائیل حزب اللہ کی عسکری طاقت سے بخوبی واقف ہے اور اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ کا مطلب فاتح 110 جیسے 400 درست گائیڈڈ میزائلوں کو مقبوضہ فلسطین کے آسمانوں میں مار گرانے کی صلاحیت کا ہونا ہے،اس طرح کے ڈراؤنے خواب کی وجہ سے اسرائیلی کمانڈروں نے شمالی محاذ کے ساتھ جنگ سے گریز کیا اور خود کو غزہ کے مظلوم عوام پر فضائی بمباری تک محدود رکھا۔
ابراہیم امن منصوبے اور الخلیل میٹنگ کا ٹھنڈے بستے میں جانا
مزاحمتی تحریک اور صیہونیوں کے آمنے سامنے آنے کے دوران ایک اور اہم واقعہ قدس کی حمایت کے لیے عالم اسلام میں ایک آواز کا پیدا ہونا تھا،صیہونیوں کے ہاتھوں مسجد الاقصیٰ کی بے حرمتی کے بعد یمن، ترکی، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور اردن کے سربراہان نے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی طرف سے کئے جانے والے جرائم کے سلسلہ کی مذمت کی اسرائیل کے خلاف عالم اسلام کے اتحاد کا مطالبہ کیا، ان واقعات کے فوراً بعد متحدہ عرب امارات اور چین نے مشترکہ طور پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا جس میں مقبوضہ فلسطین کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا جائے؛ البتہ امریکی حکومت نے صیہونی حکومت کے حق میں جانبدارانہ موقف اختیار کرتے ہوئے مسجد الاقصی پر صیہونی فوج کے حملے کی مذمت میں بیان جاری کرنے سے روک دیا،قابل ذکر ہے کہ خارجہ پالیسی کے میدان میں نیتن یاہو حکومت کے اہم منصوبوں میں سے ایک ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے خلاف عالمی مہم چلانے کے بعد اسلامی ممالک کو ابراہیم امن معاہدے میں شامل کرنے کے عمل کو تیز کرنا ہے،جبکہ میڈیا سعودی عرب کی نارملائزیشن ٹرین میں سوار ہونے کی تیاری کی اطلاع دی،تاہم مقبوضہ فلسطین میں موجودہ صورتحال نہ صرف سعودی عرب کی ناراضگی کا سبب بنی بلکہ صہیونیوں کے اقدامات پر متحدہ عرب امارات اور اردن جیسے ممالک کے شدید ردعمل کا سبب بھی بنی،سکے کا دوسرا رخ خطے کے عرب ممالک کی امریکی محور سے بتدریج دوری اور روس اور چین کے ساتھ تعلقات کی توسیع ہے،ان تغیرات پر غور کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ کم از کم جب تک نیتن یاہو کی کابینہ کے انتہا پسند عناصر غیر قانونی اقدامات نہیں روکتے، تب تک ابتاہیم امن معاہدہ تعطل کا شکار رہے گا۔
خلاصہ
مقبوضہ علاقوں میں گزشتہ دو ماہ میں پیش آنے والی صورتحال نے نیتن یاہو کی حکومت کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، ایک طرف عدالتی نظام کے اختیارات میں اصلاحات کے متنازعہ منصوبے کے خلاف داخلی مظاہرے اور دوسری طرف مسجد الاقصی پر سکیورٹی فورسز اور بنیاد پرست صہیونیوں کے حملوں کا تسلسل فلسطینیوں اور اسلامی دنیا کے دیگر ممالک کی نفرت کا سبب بنا ہے البتہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ حرم شریف کی بے حرمتی کا مقصد صہیونیوں کی صفوں میں دوبارہ اتحاد پیدا کرنے کے لیے عرب یہودی تقسیم کو متحرک کرنا تھا۔
مشہور خبریں۔
غزہ میں صیہونی مظالم کا سلسلہ جاری
?️ 31 اکتوبر 2024سچ خبریں: غزہ کے شمال میں ایک رہائشی مکان پر بمباری میں
اکتوبر
یمن کے حملے کیسے رک سکتے ہیں؟صیہونی اخبار کا اعتراف
?️ 21 مئی 2025 سچ خبریں:صیہونی اخبار نے اعتراف کیا ہے کہ یمنی حملے صرف
مئی
صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں مغربی کنارے میں 19 فلسطینی شہری گرفتار
?️ 1 مارچ 2021سچ خبریں:اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ علاقوں میں اپنی معاندانہ کاروائیاں جاری رکھتے
مارچ
مصر کا صیہونی ریاست کو سخت انتباہ
?️ 7 اپریل 2025 سچ خبریں:مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے صیہونی ریاست کو
اپریل
خیبر پختونخوا کی ماؤں میں ڈپریشن، بےچینی بڑھ رہی ہے، عالمی بینک
?️ 25 نومبر 2024پشاور: (سچ خبریں) ورلڈ بینک کی ایک نئی تحقیقی رپورٹ میں بتایا
نومبر
عراق صیہونی جرائم کو بے نقاب کرنے کے لیے بین الاقوامی میڈیا اتحاد کے قیام کے لئے کوشاں
?️ 4 جون 2024سچ خبریں: عراقی انفارمیشن اور کمیونیکیشن آرگنائزیشن کے سربراہ نے غزہ میں
جون
افغانستان میں قحط ختم کرو
?️ 9 جنوری 2022سچ خبریں: سردیوں کا موسم قریب آنے اور افغانستان میں ممکنہ انسانی
جنوری
اردگان کے بیٹے کے خلاف امریکہ میں کیا ہورہا ہے؟
?️ 27 جون 2023سچ خبریں:امریکی اور سویڈش استغاثہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے بیٹے
جون