سچ خبریں:جہاد اسلامی فلسطین کے رہنماوں میں سے ایک رامز الحلبی کا کہنا ہے کہ جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نے مشرق وسطیٰ کو تبدیل کرنے کے انتہائی خطرناک منصوبے کو ناکام بنا دیا، مجرم ان تبدیلیوں کے ذریعے مزاحمت کی کمر توڑنا چاہتے تھے اور شام میں صیہونیت اور امریکیوں کی کٹھ پتلی حکومت کو اقتدار میں لانا چاہتے تھے۔
ایرانی اور عراقی کمانڈروں کے خلاف3 جنوری 2020 کو امریکی دہشت گردانہ کارروائی جس کے نتیجے میں جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی حشد الشعبی کے رہنماؤں میں سے ایک ابو مہدی المہندس شہید ہوئے، کے بعد سے امریکی جمہوری اور ریپبلکن دونوں جماعتوں کے سیاسی حلقوں میں احتجاج اور تشویش پیدا ہو گئی ہے اس کے علاوہ امریکہ کے مختلف گروہوں میں فوری طور پر یہ سوال اٹھنے لگا کہ امریکی حکومت کے ہاتھوں ایک ایرانی جنرل اور ایک عراقی عہدیدار کے قتل کی وجہ کیا ہے؟ وائٹ ہاؤس کے سرسری جوابات اور جھوٹ نے اس دہشت گردانہ کارروائی کے بارے میں حساسیت کو مزید ہوا دی ، دوسری جانب عین الاسد میں امریکی قابض افواج کے اڈے کو تباہ کرنے کے اسلامی جمہوریہ ایران کے ردعمل اور امریکی حکومت کی جانب سے اس کے حقیقی جانی نقصان کی اطلاع نہ دینے سے واشنگٹن اور امریکی فوجی حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے یہاں تک کہ غیر ملکی جنگوں کے سابق فوجیوں نے ایک بیان جاری کیا جس میں ریاستہائے متحدہ کے صدر سے پعین الاسد بیس پر ایران کے میزائل حملے میں اس ملک کے فوجیوں کی ممکنہ ہلاکتوں اور زخمیوں کو کم سمجھنے پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔
شہید سلیمانی کے بارے میں جہاد اسلامی فلسطین کے رہنماوں میں سے ایک رامز الحلبی کا کہنا ہے کہ شہید سلیمانی کے بارے میں میرے مطالعے کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ہمہ جہتی شخصیت اور مختلف خصوصیات کے حامل تھے۔
پہلا مسئلہ مذہبی جہت کا ہے:مذہبی پروگراموں میں ان کے کلام کا جائزہ لینے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ دین کے اصولوں اور شاخوں سے واقف تھے اور صوفیانہ مرتبے پر پہنچ چکے تھے، تصوف کا وہ مرحلہ جس پر اولیاء اللہ کے فضل سے پہنچتے ہیں،ان کے مذہبی رویے کے بارے میں یہ بھی کہنا چاہیے کہ ائمہ اور اہل بیت کے روضوں میں ان کی دعاؤں اور گریہ و زاری کے مناظر اس مسئلہ کی تصدیق کرتے ہیں ،ان تصاویر کو دیکھ کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ انہیں زمین اور مادی دنیا کے لوگوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا بلکہ وہ کسی اور دنیا میں رہتے تھے،ان کی زندگی میں پائے جانے والے حقیقی اسلام کے تصورات پر غور کرتے ہوئے، ہم ان کی دیانتداری اور دنیاوی لذتوں سے اجتناب کو دیکھتے ہیں، وہ واقعی اس دنیا میں اجنبی تھے، ان کا ٹھکانہ تو جنت میں تھا، ان کا کھانا پینا اور لباس پہننے کا انداز بھی سب سے مختلف تھا،ان کے ہاتھوں تربیت پانے والے مجاہدین نے ہمیں اس سلسلے میں بہت سی باتیں بتائی ہیں، ان کا طریقہ یہ تھا کہ جب تک مجاہدین کھانا نہیں کھا لیتے وہ نہیں کھائیں گے۔
دوسرا مسئلہ ان کی جرات و بہادری کا ہے جو مثالی ہے،ان کے شانہ بشانہ لڑنے والوں نے اس جرات اور بہادری کو سمجھا اور محسسس کیا ہے، ان کی شجاعت کی ایک مثال یہ کارروائی تھی کہ جب شام میں مجاہدین کا ایک گروپ داعش کے ایک مرکز میں پھنس گیا تو اس بہادر شخص نے پٹرول کا گیلن لیا اور اسے ایک موٹر سائیکل سوار کے ساتھ مجاہدین تک پہنچایا نیز ان کے لیے واپسی کا راستہ بھی محفوظ بنایا،قابل ذکر ہے کہ یہ کارروائی اس وقت ہوئی جب داعش کی جانب سے قیدیوں کے سر قلم کرنے اور جلانے کے حوالے سے کافی پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا جبکہ اس صورتحال میں درجنوں مجاہدین رضاکارانہ طور پر ایسا کرنے کے لئے تیار تھے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور یہ کام خود کیا، وہ کئی دہائیوں تک میدان جنگ میں رہے اور سینکڑوں بہادرانہ کارنامے انجام دیے۔
تیسرا مسئلہ ان کے کردار کی انسانی جہت ہے،اس شہید مومن رہنما نے مزاحمت کے محور میں عوام کے دلوں کو اپنی گرفت میں لے لیا، کیونکہ انسانی نقطہ نظر سے وہ ایک ممتاز اور کامل شخصیت کے مالک تھے، بچوں، مجاہدین اور لوگوں کے ساتھ سلوک کرنے کی ان کی ویڈیوز موجود ہیں ، یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ ایک کامل انسان تھے، ایک جگہ نماز پڑھتے ہوئے ایک بچہ ان کے پاس آتا ہے اور انہیں پھول دینا چاہتا ہے، وہ اسے بچے کے ہاتھ سے لے لیتے ہیں تاکہ اس کا دل نہ ٹوٹے،بلاشبہ شہید قاسم سلیمانی کی زندگی کی تفصیل چند صفحات اور چند جملوں میں نہیں سما سکتی کیونکہ ہم ایک ایسے عظیم انقلابی کی بات کر رہے ہیں جو مختلف ممالک اور متعدد محاذوں پر صیہونیوں، امریکیوں اور ان کے ایجنٹوں سے برسرپیکار رہے۔
جنرل سلیمانی کے قتل کی وجوہات
قاسم سلیمانی کا قتل صرف اس لیے ہوا کہ امریکی صہیونی دشمن کو معلوم تھا کہ مزاحمتی محور کا یہ بازو ان کے مجرمانہ منصوبوں کو ناکام بنا سکتا ہے اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا ، فلسطین میں ہم نے فلسطینی مجاہدین کے ہتھیاروں کی مقدار اور معیاری ترقی دیکھی ، اس ترقی کا ایک حصہ شہید سلیمانی کی نگرانی میں انجام پایا، سردار سلیمانی نے غزہ کو کارنیٹ میزائل اور فجر میزائل بھیجے،اس کے بعد انہوں نے شام اور لبنان میں امریکیوں، صیہونیوں اور تکفیریوں کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا، اس طرح کے معاملات میں ان کے اقدامات بہت زیادہ ہیں ، ہم یمن اور عراق میں صیہونیوں اور امریکیوں کی کٹھ پتلیوں کے خلاف ان کی لڑائیوں کا ذکر بھی کر سکتے ہیں، اس سلسلے میں ان کی اور ان کے اتحادیوں کی ان تمام عظیم کامیابیوں نے صہیونی امریکی دشمن کو جلد از جلد ان کے قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان معاملات پر غور کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مجرموں کی طرف سے مزاحمت کی حمایت کرنے والی شامی حکومت کا تختہ الٹنے کی بہت سی کوششیں کی گئیں، امریکہ اور اسرائیل کی نگرانی میں شام کے خلاف جنگ شروع ہوئی جو 10 سال تک جاری رہی، اس جنگ میں خلیج فارس کے ساتھ عرب ممالک کا پیسہ ، تکفیری فتوے اور وحشیانہ قتل و غارت گری کے تمام ذرائع خاص طور پر داعش اور اس جیسے گروہوں کا بھر پور استعمال کیا گیا لیکن سب کی کشتی مزاحمت کی چٹان اور قاسم سلیمانی جیسے عظیم انسان سے ٹکرا کرڈوب گئی جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں ایک خطرناک اور اہم منصوبہ ناکام ہو گیا، وہ ایک نیا مشرقِ وسطیٰ بنانا چاہتے تھے، تاہم ناکام رہے،وہ چاہتے تھے کہ امریکی اور صیہونی کرائے کے حکمران خطے کے ممالک میں برسر اقتدار آئیں لیکن مزاحمت نے انہیں قدم جمانے کا موقع نہ دیا، قاسم سلیمانی راہ حق میں لڑنے والوں کے لیے ایک بہت اچھی مثال ہیں ہر کوئی جو انہیں جانتا ہے وہ ان کا پیروکار بننا چاہتا ہے،صیہونی اور امریکی دشمنوں کو یہ سب ایک آنکھ نہیں بھاتا، اسی وجہ سے وہ اس قسم کی سوچ اور اس عظیم مثال کو ختم کرنے کے لیے انہیں قتل کرنا چاہتے تھے ، اسی وجہ سے صیہونی قاسم سلیمانی اور ان کے طریقے، فکر، طرز عمل، اور مکتب کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے۔
شہید سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نے مشرق وسطیٰ کو تبدیل کرنے کے انتہائی خطرناک منصوبے کو ناکام بنا دیا، وہ ان تبدیلیوں کے ذریعے مزاحمت کی کمر توڑنا چاہتے تھے اور شام میں صیہونیت اور امریکیوں کی کٹھ پتلی حکومت کو اقتدار میں لانا چاہتے تھے،میں سردار سلیمانی کو سچائی اور نیکی کے متلاشیوں کے لیے ایک بہترین مثال سمجھتا ہوں ، جو بھی ان کی پیروی کرے گا وہ ان سے متاثر ہو کر قاسم سلیمانی جیسا بننے کی کوشش کرے گا اور یہ بات صیہونی امریکی دشمن برداشت نہیں کریں گے، وہ قاسم سلیمانی کو قتل کرنا چاہتے تھے، ایک ایسے شخص کا قتل جو مجاہدین کے لیے ایک اچھی مثال ہو سکتا ہے۔ اس لیے صہیونی دشمن قاسم سلیمانی کو ان کے طرز عمل اور افکار میں باقی رہنے کو برداشت نہیں کر سکتا۔