سچ خبریں:پیر کے روز صدر شہر میں ہونے والا دھماکا پچھلے تین ماہ میں بغداد کے شیعہ علاقوں میں ہونے والا تیسرا دہشت گردانہ حملہ تھا۔
پہلا دھماکہ 15 اپریل 2021 کو بغداد کے جنوب میں واقع صدر سٹی میں ایک کار بم سے ہوا جس کے نتیجے میں کم از کم ایک شہری ہلاک اور 12 زخمی ہوگئے تھے،دوسرا دھماکہ 4 جون 2021 کو ہوا جس میں ایک جاں بحق جبکہ 23 افراد زخمی ہو گئے تاہم صدر سٹی کے جنوبی حصے میں پیر کےروز دوپہر کو ہونے والا دھماکہ ہلاکتوں کے معاملے میں سب سے بڑا اور اہم دھماکہ ہے ، کیونکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 30 سے تجاوز کرگئی اور زخمیوں کی تعداد 60 سے تجاوز کرگئی اسی وجہ سے عراقی صدر برہم صالح نے اس دہشت گردانہ حملے کو تکلیف دہ اور انوکھا جرم قرار دیا۔
یہ دھماکا عید الاضحی کے موقع پر ہوا تھا ، جو سابق عراقی آمر صدام حسین کی پھانسی کی 15 ویں برسی ک ادن بھی تھا،یادرہے کہ نوری المالکی کی حکومت نے 2006 میں عید الاضحی کے دن آمر صدام حسین کو پھانسی پر لٹکایا لہذا کچھ کا خیال ہے کہ بغداد کے صدر شہر پر حالیہ بم دھماکے میں بعث پارٹی کا ہاتھ ہے۔
اگرچہ داعش دہشت گرد گروہ نے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی تاہم جیسا کہ کچھ لوگوں نے صدر شہر میں ہونے والے حالیہ بم دھماکے کو صدام کی پھانسی کی برسی سے جوڑا ہے اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ بعث پارٹی عراق میں سرگرم ہے،تاہم عراقی اور مغربی سکیورٹی کی تمام اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدام کی حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد 2003 کے بعد سے ، کالعدم بعث پارٹی اپنے مقاصد کے لئے القاعدہ کے دہشت گرد گروہوں اور ان سے وابستہ تنظیموں میں دراندازی اور ان کا استحصال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
دریں اثنا کچھ نے صدر شہر میں ہونے والے سابق دھماکے اور پیر کے دھماکے کے درمیان چند سو میٹر کے فاصلے پر دہشت گردوں کے سیل کے وجود کی اطلاع دیواضح رہے کہ متعدد عراقی ماہرین نے ملک میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی ، دھماکوں ،آتشزدگی ، عام انتشار اور عدم استحکام کے پیچھے انتخابات میں تاخیر کرنے کے لیے ایک اہم سیاسی محرک قرار دیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ کچھ عراقی ماہرین عراق میں حالیہ تباہ کن واقعات ، جن میں صوبہ ذی قار (جنوبی عراق) کے دارالحکومت ناسریہ کے الحسین اسپتال میں آتشزدگی بھی شامل ہے کے سلسلہ میں عراق میں سابق برطانوی سفیر اسٹیفن ہِکی کی بات کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے کہاتھا کہ اس موسم گرما میں عراق میں آگ لگا دےگا۔