سچ خبریں:فٹ بال کو ایک خوبصورت کھیل کہا جاتا ہے، لیکن میرے لیے فٹ بال مار پیٹ اور جنسی تشدد کے برابر ہے،انگلینڈ میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے… مجھے تو یاد بھی نہیں رہا کہ میں نے کلب کی ٹیم کے ہارنے یا قومی ٹیم کی شکست کے بعد کتنی بار مار کھائی ہے،یہ انگلینڈ میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین میں سے ایک کے الفاظ ہیں۔
11 جولائی کو اٹلی یورو 2020 کا چیمپئن بن گیا، اس ٹیم نے اپنے آخری میچ میں انگلینڈ کو پنالٹیز پر 2-3 سے شکست دی جس کے بعد انگلینڈ کی مایوس کن شکست کو صرف اسٹیڈیم اسٹینڈز میں ہی محسوس نہیں کیا گیا بلکہ اس نے مزید آگے بڑھ کر نفرت انگیز جرائم اور خواتین کے خلاف تشدد میں خود کو ظاہر کیا۔ برطانوی فٹ بال کے شائقین کے لیے فائنل میں شکست جتنی بھی تکلیف دہ تھی وہ اس ملک میں فٹ بال شائقین کے پرتشدد رویے کی وجہ سے گھریلو تشدد اور جرائم کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ کی نظر ہوگئی۔
برطانیہ کے نیشنل سینٹر فار ڈومیسٹک وائلنس کی جانب سے شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، جیت یا ہار کی پرواہ کیے بغیر، جب بھی برطانوی فٹ بال ٹیم میدان میں اترتی ہے، اس ملک میں پرتشدد جرائم، خاص طور پر گھریلو تشدد میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے، گھریلو تشدد کا شکار ایک خاتون کہتی ہیں کہ مجھے تو یاد بھی نہیں کہ میں نے اپنے شوہر کے پسندیدہ کلب کی ٹیم کے ہارنے یا انگلینڈ کی قومی ٹیم کے میچ ہارنے کے بعد کتنی بار بار مار کھائی ہے ، یورپی نیشنز کپ کے فائنل کے بعد برطانی مردوں کا پرتشدد رویہ صرف گھریلو تشدد تک ہی محدود نہیں بلکہ انہوں نے اطالوی قومی ٹیم کے شائقین کو بھی توہین اور نسل پرستانہ نعروں کے ساتھ رخصت کیا، مزید برآں، اسٹیڈیم اور سوشل میڈیا میں پنالٹی ککس سے محروم برطانوی کھلاڑیوں کے خلاف توہین اور نسل پرستی کو بھی واضح طور پر دیکھا گیا،سوشل میڈیا پر گالی گلوچ اس حد تک پہنچ گئی کہ برطانوی فٹ بال ایسوسی ایشن، سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن یہاں تک کہ شہزادہ ولیم نے بھی اس کی مذمت کی ، تاہم، ان میں سے بہت سے انتہاپسندانہ رویوں کو آسانی سے قبول کر لیا جاتا ہے اور انہیں فٹ بال شائقین کے قابل قبول رویے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ورلڈ کپ کے آغاز کے ساتھ ہی برطانوی خواتین کے خوف اور پریشانی میں اضافہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ فٹ بال انگلینڈ کا سب سے مقبول کھیل ہے اور اس ملک کی قومی فٹ بال ٹیم کے تمام کھیلوں کی ٹیموں میں سب سے زیادہ شائقین ہیں، یہاں عالمی کپ جیسے بین الاقوامی مقابلوں میں فٹبال اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے، انگلینڈ کی خواتین کی قومی ٹیم کے یورپی چیمپئن شپ جیتنے کے بعد اس ملک کی مردوں کی قومی فٹ بال ٹیم سے قطر کے ورلڈ کپ میں توقعات بہت زیادہ تھیں لیکن فرانس کے خلاف انگلینڈ کی شکست اور اس ملک کے فٹ بال مردوں کے غصے کا سبب بنے گی جس کے نتیجہ میں انگلینڈ بھر میں بہت سی خواتین اور بچے عصمت دری اور تشدد کا شکار ہوں گے۔
واضح رہے کہ برطانوی قومی فٹبال ٹیم کے شائقین کی جانب سے خواتین پر تشدد کے عجیب و غریب اعدادوشمار سامنے آئے ہیں، اس ملککی قومی ٹیم کے ہارنے پر گھریلو تشدد میں 38% اور اس ٹیم کے جیتنے پر 28% اضافہ ہوتا ہے، یہ تشدد گیم شروع ہونے کے تقریباً 10 گھنٹے بعد اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے، بہت سے گھرانے جن کے آپسی تعلقات اچھے نہیں ہیں، کو فٹ بال کے بڑے مقابلے جیسے ورلڈ کپ کے دوران اپنے شریک حیات کے ہاتھوں خوف اور اضطراب کے شدید ادوار سے گذرنا پڑتا ہے، ویمنز ہیلپ سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایلین یٹس کا کہنا ہے کہ وہ اس سال خواتین کے خلاف تشدد کی صورت حال پر دیگر اوقات کے مقابلے زیادہ فکر مند ہیں کیونکہ انگلینڈ میں زندگی گزارنے کے اخراجات میں اضافے کی وجہ سے وہ خواتین جو اپنے بل بوتے پر زندگی نہیں گذار سکتی ہیں، تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور انہیں حالات کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔
گزشتہ ورلڈ کپ کے دوران، نیشنل سینٹر فار ڈومیسٹک وائلنس نے انگلینڈ کے میچوں کے بعد خواتین کے خلاف تشدد کو کم کرنے کے لیے شہر میں متعدد اقسام کے پوسٹر لگا کر مہم چلائی ، پوسٹرز میں ایک خاتون کا خون آلود چہرہ دکھایا گیا تھا اور یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے کہ ’’اگر انگلینڈ ہار گیا تو اسے توڑ دیا جائے گا ،گھریلو بدسلوکی کی نوعیت کے پیش نظر جسے اکثر ایک چھپا ہوا جرم سمجھا جاتا ہے، یہ ممکن ہے کہ یہ اعدادوشمار فٹ بال کے بڑے میچوں کے دوران گھریلو زیادتی کے واقعات کا ایک فیصد بھی نہ ہوں اس لیے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے بہت سے واقعات کی اطلاع نہیں دی جاتی ہے،اس مقصد کے لیے برطانوی ہوم آفس نے اس ملک میں خواتین کے خلاف فٹ بال سے متعلق زیادتیوں کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی ہے، اس سے قطع نظر کہ وہ کس کھیل کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں، برطانوی مرد اپنے ساتھیوں پر ہونے والے تشدد کے ذمہ دار ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ برطانوی فٹ بال کے شائقین میں بدگمانی کا کلچر رائج ہے،اس ملک میں ہر ہفتے 2 خواتین کو ان کے شریک حیات قتل کر دیتے ہیں جبکہ جنسی زیادتی کے صرف ایک فیصد الزامات کے نتیجے میں سزائیں ملتی ہیں، ویمنز ایڈ انسٹی ٹیوٹ کی سی ای او فرح نذیر کا خیال ہے کہ انگلینڈ میں حقوق نسواں مخالف نقطہ نظر اور صنفی امتیاز کا اس ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ریپ اور تشدد سے براہ راست تعلق ہے، انگلینڈ طویل عرصے سے گھریلو تشدد کے لیے ایک اہم نقطہ پر پہنچ رہا ہے، اس ملک کے شماریات کے قومی بیورو کے تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 2020 سے 2021 تک پولیس کے ذریعہ ریکارڈ ہونے والی گھریلو زیادتی سے متعلق جرائم کی تعداد میں تقریباً 6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ، خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے لیے فالو اپ سنٹرز پر لوگوں کی کالز میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے، تاہم، گھریلو مسائل کے وکیل وکٹوریہ کینن نے زور دیا کہ زیادہ تر گھریلو تشدد کا شکار ہونے والے افراد رپورٹ نہیں کرتے کیونکہ وہ اس کے نتائج سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ اس طرح انہیں مزید تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا، اس کے علاوہ زیادہ تر معاملات میں پولیس یہ کہتے ہوئے کہ یہ مسائل خاندانی معاملات ہیں، گھریلو تشدد کے معاملات کو نمٹانے میں زیادہ وقت نہیں دیتی، آج یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ برطانیہ میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کی وبا پھیلی ہوئی ہے، جس کے مرکز میں پولیس ہے اور اس سے معاشرے میں خواتین کے خلاف تشدد سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
شراب کے ساتھ برطانوی شائقین کا لازم و ملزوم کا رشتہ
برطانوی طرز عمل کی ماہر اینا ٹرینڈل نے اس تناظر میں لکھا کہ اگرچہ برطانوی قومی فٹ بال ٹیم کے نتائج اور گھریلو زیادتیوں نیز دیگر پرتشدد جرائم کی تعداد میں اضافے کے درمیان تعلق کا تفصیلی جائزہ بہت پیچیدہ ہےلیکن شواہد سے سے پتہ چلتا ہے کہ شراب کی کھپت اس تعلق میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، کھیلوں کے شائقین اور الکحل والے مشروبات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، خاص طور پر ایہ برطانوی فٹ بال کے شائقین کے تناظر میں ایک حقیقت ہے، 2018 میں ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں سویڈن کے خلاف انگلینڈ کی جیت کے دن ملک بھر کے ہسپتالوں نے شراب نوشی کے نئے ریکارڈ کی اطلاع دی جبکہکئی مطالعات نے شراب کے نشہ اور پرتشدد رویے کے درمیان تعلق کو دستاویز کیا ہے، اگرچہ شراب متشدد رویے کی براہ راست وجہ نہیں ہوسکتی لیکن یہ ایک بڑھنے والے عنصر کے طور پر کام کر سکتی ہے ، برطانوی دفتر برائے قومی شماریات کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں پرتشدد جرائم کے متاثرین کا خیال ہے ان کے خلاف تشدد کے 39 فیصد واقعات میں شراب کے زیر اثر ہوتے ہیں، فٹ بال اور گھریلو تشدد کے درمیان تعلق میں الکحل کے کردار کی تحقیقات کے لیے انگلینڈ میں پولیس کے 10 سال کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا، تحقیق کا مرکز برطانوی قومی فٹ بال ٹیم کے ورلڈ کپ اور یورپی چیمپئن شپ کے میچوں پر رہا ہے، نتائج نے ان دنوں میں شراب سے متعلق گھریلو تشدد کے واقعات میں 47 فیصد اضافہ ظاہر کیا جب انگلینڈ نے ٹورنامنٹ جیتا اور انگلینڈ کے میچ کے بعد کے دنوں میں 18 فیصد اضافہ ہوا۔
جب ہم انگلینڈ کی جیت کے اثرات کے عین وقتی مثالوں پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ شراب سے متعلق گھریلو تشدد کے واقعات میں میچ کے پہلے تین گھنٹوں میں شروع ہونے والے، اگلے تین گھنٹوں میں عروج پر پہنچتے ہیں، اور پھر آہستہ آہستہ کم ہوتے جاتے ہیں، میچ کے بعد 24 گھنٹوں میں یہ کم ہو جاتے ہیں، انگلینڈ کی فتح کے دنوں میں شراب سے متعلق دیگر اسی طرح کے واقعات کے لیے تشدد میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ الکحل سے متعلق تشدد کے رجحان پر ملک کی قومی فٹ بال ٹیم کی فتح کا اثر گھریلو ترتیبات تک محدود نہیں ہے، الکحل کی بڑھتی ہوئی کھپت اور گیمنگ سے وابستہ مضبوط جذبات شدت اور تعدد دونوں لحاظ سے، تشدد کے بڑھتے ہوئے ارتکاب کا باعث بن سکتے ہیں،فٹ بال کے بارے میں بہت باتیں کی جاتی ہیں لیکن جب فٹ بال اور تشدد کے درمیان تعلق کی بات کی جائے خاص طور پر خواتین کے خلاف تشدد کی بات کی جائے تو تمام میڈیا خاموش ہو جاتا ہے کیونکہ اس مسئلہ کو پڑھنا یا سننا سامعین کو اچھا نہیں لگتا اور اس پر بہت سی قانونی پابندیاں ہیں۔