سچ خبریں: ممتاز فلسطینی تجزیہ نگار نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ یمن کی جانب سے صیہونی حکومت کے ٹھکانوں اور جہازوں کے خلاف کاروائیوں کا جواب دینے کی ہمت نہیں رکھتا۔
ممتاز فلسطینی ماہر اور علاقائی اخبار رائے الیوم کے ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے غزہ جنگ کے بارے میں اپنے نئے کالم میں صیہونی حکومت کے ٹھکانوں کے خلاف یمنی مسلح افواج کی کاروائیوں کے تیز ہونے کے ساتھ ساتھ صنعاء کے نئے فیصلے خوراک اور ادویات کے غزہ پہنچنے سے قبل مقبوضہ فلسطین کی طرف بحری جہازوں کی نقل و حرکت کو روکنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یمن کی تحریک انصاراللہ نے اسرائیلی بحری جہازوں کے خلاف بحری کاروائیاں کرکے اور غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف بہادرانہ مؤقف اختیار کرکے صرف فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی دشمن کی اس قدر جارحیت کے سامنے خاموشی اختیار کرنے والے عرب ممالک کو ہی شرمندہ نہیں کیا بلکہ یہ اس جنگ میں قابض حکومت کی شکست کو بھی تیز کر سکتا ہے۔
یمنی عوام امریکہ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہیں
عطوان نے مزید کہا کہ صنعاء میں تحریک انصار اللہ اور اس کی حکومت نے غزہ کی مزاحمت اور عوام کی بھرپور حمایت کی اور نسل کشی کی اس جنگ کے خلاف کھڑے ہو گئے جو امریکہ اور اسرائیل نے بیس لاکھ فلسطینیوں کے خلاف شروع کی ہے۔
یاد رہے کہ قابض حکومت اور اس کی حمایت کرنے والے تمام مغربی ممالک نیز ان کی سربراہی میں امریکہ کے خلاف فوجی اور تجارتی سمندری ناکہ بندی کرکے یمنی عوام غزہ پر صیہونی دشمن کی جارحیت کے خلاف کھڑے ہیں،اس کا عملی طور پر مطلب یہ ہے کہ آبنائے باب المندب اور بحیرہ احمر کو نہ صرف اسرائیلی جہازوں کے لیے بلکہ مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں پر جانے والے کسی بھی قومیت کے تمام تجارتی جہازوں کے لیے بند کر دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی حکومت کے گلے پر انصار اللہ کی چھری
اس فلسطینی تجزیہ نگار نے زور دیا کہ یمن میں ہمارے بھائی جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں اور غزہ کے عوام کی کامیابی کے مقصد سے اسرائیل کے علاوہ امریکہ کے ساتھ بھی جنگ کے لیے تیار ہیں،مسئلۂ فلسطین تمام یمنیوں کے لیے مقدس ترین مسئلہ ہے کہ فلسطین کی حمایت میں یمن کے بیشتر شہروں میں لاکھوں افراد کے مظاہرے اس حوالے سے واضح ثبوتوں میں سے ایک ہیں۔
عبدالباری عطوان نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ یمنی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر یحییٰ سریع نے اس ملک کی سرکاری ٹیلی ویژن پر اپنے حالیہ بیان کے فوراً بعد اعلان کیا کہ مقبوضہ فلسطینی بندرگاہوں کی طرف بڑھنے والے تمام بحری جہازوں کو نشانہ بنایا جائے گا جس کے بعد یمنی افواج نے الحدیدہ بندرگاہ کے سامنے فرانسیسی جہاز پر ڈرون حملہ کیا جس پر ابھی تک امریکہ خاموش ہے اور کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر رہا ہے۔
امریکہ میں یمن کی کاروائیوں کا جواب دینے کی ہمت کیوں نہیں؟
اس تجزیے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ امریکہ کے اس رویے کی وجہ اول تو اس ابہام کی کیفیت کو چھپانا ہے جس میں وہ اس وقت ڈوبا ہوا ہے اور وہ ان برے نتائج کے بارے میں فکر مند ہے جو انصاراللہ فورسز کے کسی بھی انتقامی ردعمل کے نتیجے میں برآمد ہو سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے صیہونی حکومت سے کہا کہ وہ یمنی مسلح افواج کے ہاتھوں اسرائیلی جہاز کو قبضے میں لینے کے جواب میں اپنی دھمکیوں پر عمل نہ کرے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ دھمکیاں کھوکھلی اور بے فائدہ ہیں۔
اس کالم کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے باضابطہ طور پر امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی رہنماؤں سے کہا کہ وہ اسرائیل کے خلاف یمن کی بحری ناکہ بندی کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں اور اس ناکہ بندی کو توڑ دیں لیکن یمن کی کارروائیوں کے ردعمل کے حوالے سے امریکی ہچکچاہٹ کی وجہ یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس کو یقین ہے کہ یمن کے خلاف کسی بھی جارحیت کا فوری جواب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین میں امریکی اڈوں پر میزائلوں سے دیا جائے گا جہاں ہزاروں امریکی فوجی تعینات ہیں۔
عطوان نے واضح کیا کہ اسرائیلیوں کی خالی دھمکیوں پر انصاراللہ کی قیادت کا ردعمل کافی مختصر لیکن خوفناک تھا جہاں انہوں نے تاکید کرتے ہوئے صیہونیوں سے کہا کہ میدان میں آؤ ہم آپ کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
انصار اللہ تحریک یمن جنگ کے دوران آٹھ سال تک ڈٹی رہی اور فوجی لحاظ سے طاقت کے توازن میں فرق کے باوجود اس نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے تو اب جبکہ اس کے پاس بیلسٹک میزائل،ڈرونز اور لاتعداد سمندری بارودی سرنگیں اور اسپیڈ بوٹس ہیں اسی لیے بریگیڈیئر جنرل یحییٰ سریع دشمن کے خلاف اپنی دھمکیوں کو تیزی سے نبھاتے ہیں اور اس معاملے میں مبالغہ سے کام نہیں لیتے۔
اس تجزیے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسرائیل جسے مختلف سطحوں پر امریکہ اور یورپ کی بھرپور حمایت ہے، یمن کی طرف سے اپنے بحری جہازوں کو لاحق خطرے کو اپنے خلاف بحری ناکہ بندی تصور کرتا ہے،واقعی عجیب بات ہے، یہ جو صیہونی حکومت 17 سال سے غزہ کے عوام کے خلاف کر رہے وہ کیا ہے ، اس نے اس علاقے کے 20 لاکھ لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتوں تک رسائی سے محروم کر رکھا ہے، کیا وہ محاصرہ نہیں ہے؟
علاقائی جنگ کا سب سے بڑا نقصان اٹھانے والا امریکہ ہوگا
رائے الیوم کے ایڈیٹر نے مزید لکھا کہ سعودی عرب کی قیادت نے ایک دور اندیشی سے کام لیا ہے جب اس نے امریکی حکومت سے کہا ہے کہ وہ خود کو روکے اور یمنی حملوں اور یمنی فورسز کے ذریعہ ایک اسرائیلی جہاز کو قبضے میں لینے کا جواب نہ دے،کیونکہ اپنے تجربے کے مطابق وہ جانتے ہیں کہ یمن کے خلاف کسی بھی حملے کے بہت برے نتائج ہوں گے اور اس سے امریکی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور یمن کے درمیان جنگ بندی بھی ختم ہو جائے گی نیز یمن میں شدید جنگ کی صورتحال پیدا ہو جائے گی اور خطہ اور بحیرہ احمر تباہ کن میدان جنگ بن جائے گا،اس کے علاوہ یمن کے خلاف کسی بھی حملے کا مطلب آبنائے باب المندب کے راستے لاکھوں بیرل تیل کی مغربی ممالک کی طرف جانے سے رک جانا ہے جس سے دنیا میں ایندھن کا ایک بڑا بحران پیدا ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں: کیا امریکہ اور اس کے عربی چیلے یمنی فوج کو کنٹرول کر سکتے ہیں؟امریکی میڈیا کی زبانی
آخر میں عطوان نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی حکومت اس وقت خطے اور دنیا میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ دو بنیادی مسائل کا جائزہ لے رہی ہے:
1۔ پہلا؛ تحریک انصار اللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈالنا۔
2۔ اور دوسرا آبنائے باب المندب کو بند کرنے کی کسی بھی کوشش کا مقابلہ کرنے کے لیے بحیرہ احمر میں ایک فوجی تحفظ فورس کی تشکیل لیکن اس میدان میں امریکہ کی طرف سے کوئی بھی اقدام خطے میں جنگ کی توسیع کا باعث بنے گا،ایسی جنگ جس میں خود امریکہ ہی ہا جائے گا۔