سچ خبریں:شام کے صدر بشار الاسد نے ترک صدر رجب طیب اردگان کی بار بار ان سے ملاقات کی پیشکش اور درخواست کے حوالے سے واضح طور پر اس معاملے کو اگلے سال جون میں ترکی کے صدارتی انتخابات تک ملتوی کر دیا ہے لیکن اردگان نے پھر اس ملاقات کی تجویز پیش کی ہے۔
اردگان، جو ترکی، آذربائیجان اور ترکمانستان کے درمیان سہ فریقی اجلاس میں شرکت کے لیے ترکمانستان کے شہر ترکمانباشی گئے تھے، نے انقرہ واپسی پر صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو ترکی، روس اور شام کے سربراہان کے درمیان سہ فریقی اجلاس کی تجویز پیش کی تو انہوں نے بھی اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور اس طرح ہم ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کریں گے، اردگان نے یہ کہتے ہوئے کہ ہم ترکی، روس اور شام کے درمیان سہ فریقی قدم اٹھانا چاہتے ہیں، اعلان کیا کہ سب سے پہلے ترکی اور شام کی انٹیلی جنس ایجنسیوں، پھر وزرائے دفاع اور پھر وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقاتیں ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو نے 22 دسمبر کو ایک بار پھر اعلان کیا کہ انقرہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، شام کے سیاسی عمل کو آگے بڑھانے اور پناہ گزینوں کی واپسی کے میدان میں شامی فریق کے ساتھ تعاون اور بات چیت کے لیے تیار ہے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر شامی حکومت سنجیدہ ہے تو ہم دمشق کے ساتھ تعاون اور بات چیت کے لیے تیار ہیں، اس کے بعد ماسکو نے بھی اردگان کی جانب سے ترکی، شام اور روس کے صدور کے درمیان اجلاس منعقد کرنے کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے، روس کے نائب وزیر خارجہ میخائل بوگدانوف نے اسپوٹنک نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ماسکو ترکی، شام اور روس کے سربراہان کے درمیان ملاقات کے لیے ترک صدر رجب طیب اردوان کے خیال کے بارے میں بہت مثبت سوچ رکھتا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ تجویز بہت مثبت ہے اور اس سلسلے میں ہم فی الحال اپنے شامی دوستوں سے مشاورت کر رہے ہیں۔
اسد کا اردگان کو جواب
حالیہ دنوں اور مہینوں میں انقرہ کے حکام نے شام کے بارے میں ترکی کے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کے بارے میں متعدد بار بات کی ہے یہاں تک کہ اس ملک کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنے شامی ہم منصب بشار الاسد سے ملاقات کرنے اور تنازعات کو حل کرنے کی بات بھی کی ہے جو ابھی کارروائی کے مرحلے تک نہیں پہنچی ہے ، تاہم دمشق نے بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ انقرہ کے اقدامات کے بارے میں پرامید نہیں ہے، شام کے صدر بشارالاسد کا اس سلسلہ میں آخری موقف 11 دسمبر کا ہےجب انہوں نے واضح طور پر اردگان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ان کے ساتھ ملاقات کی پیشکش کو ٹھکرا دیا، تاہم اردگان نے دوبارہ اپنی درخواست کو پیش کیا، اسی تاریخ (11 دسمبر) کو خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ دمشق نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی موجودگی میں دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ملک سے ترک فوجی دستوں کے انخلاء کی ضرورت پر زور دیا ۔
روئٹرز نے دو باخبر ذرائع کے حوالے سے خبر دی کہ دمشق کا خیال ہے کہ اگلے سال ترکی کے انتخابات کے موقع پر اس طرح کی ملاقات سے اردگان کو فائدہ پہنچے گا، خاص طور پر اگر ترکی 3.6 ملین شامی مہاجرین کو اپنے ملک واپس بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے، ان دو باخبر ذرائع میں سے ایک نے اسد کا حوالہ دیا اور دعویٰ کیا کہ "ہم اردگان کو مفت میں فتح کی پیشکش کیوں کریں؟ انتخابات سے پہلے تعلقات اچھے نہیں ہوں گے، انہوں نے یہاں تک کہا کہ دمشق نے موجودہ وقت میں دونوں ممالک کےوزرائے خارجہ کے اجلاس کے انعقاد کی بھی مخالفت کی ہے، البتہ اردگان نے اس تاریخ سے چند دن پہلے کہا تھا کہ موجودہ وقت اور حالات میں اسد سے ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں،روئٹرز نے اس تجویز سے واقف ایک اور ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ دمشق ایسی ملاقات کو بیکار سمجھتا ہے جب تک کہ اس کے ٹھوس نتائج نہ ہوں، یاد رہے کہ شام نے اب تک اپنی سرزمین سے ترک افواج کے مکمل انخلاء کی درخواست کی ہے، اسد کے ان الفاظ کے بعد شامی ایوان صدر کی سیاسی اور میڈیا مشیر بثینہ شعبان نے دمشق اور انقرہ کے درمیان مفاہمت کے امکان اور رجب طیب اردگان اور بشار اسد کے درمیان ملاقات کے انعقاد کے بارے میں ترک حکام کے بیانات کو دھوکہ دہی قرار دیا، انہوں نے واضح کیا تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان سیاسی تعلقات کی قربت کے بارے میں ترک صدر کے حالیہ بیانات میڈیا کے لیے ہیں جن کا موجودہ حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے،شعبان کے مطابق ہم کئی مہینوں سے میڈیا کے یہ بیانات سن رہے ہیں اور ایسے بیانات مخصوص وجوہات کی بناء پر دیے جاتے ہیں جو انتخابی اثر ڈال سکتی ہیں یا دوسری جماعتوں پر دباؤ ڈالنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
ترکی کا معاشی مسئلہ حل کرنا انتخابات میں اردگان کی جیت کی کلید
تاہم گزشتہ سال انقرہ حکومت نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر جیسے ممالک کے ساتھ اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جس میں اسے پہلے دو معاملات میں کامیاب رہی اور مصر کے معاملے میں دونوں ممالک کے درمیان پہلی ملاقات دوحہ میں امیر قطر کی ثالثی سے ترکی اور مصر کے صدور کے درمیان ہوئی جس سے فریقین کے درمیان مذاکرات کا راستہ کھل گیا ہے لیکن شام کے معاملے میں معاملہ کچھ مختلف ہے کیونکہ انقرہ نے گزشتہ 11 برسوں میں شامی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے امریکہ، صیہونی حکومت، فرانس، انگلینڈ اور سعودی عرب کے شانہ بشانہ تکفیری دہشت گردوں کی حمایت کی ہے اور ان کی کوئی مدد میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے، اب جہاں تک ترکی اور شام کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی کوشش کا تعلق ہے تو یہ معلوم ہے کہ ترکی نے یہاں بھی بھی وہی راستہ اختیار کیا جو انہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ کیا ،انہوں نے انقرہ اور دمشق کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنے پرعزم ہونے کا اعلان کیا تاکہ اس طرح سے کہ وہ شام کے موجودہ معاشی حالات پر قابو پا سکیں اور اس ملک کو دوبارہ تعمیر کرکے شام کی مارکیٹ سے فائدہ اٹھا کر ترکی کی معیشت کے ایک حصے کو منظم کر سکیں اور اس طرح اردگان اپنے ملک کے 2023 کے انتخابات جیت سکیں۔ لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ اسد اردگان کے منصوبے بھانپ چکے ہیں اور وہ انتظار کریں گے کہ اگلے سال ہونے والے ترکی کے صدارتی انتخابات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
یاد رہے کہ 19 دسمبر کو اردگان نے اعلان کیا کہ وہ آخری بار جون 2023 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے اس کے بعد ترکی کا پرچم اس ملک کے نوجوانوں کے حوالے کردیں گے۔ اب صدارتی انتخابات جیتنے کا معاملہ اردگان کے لیے عزت کا معاملہ بن گیا ہے اور حالیہ برسوں میں ترکی کی انتظامیہ میں کامیاب کیرئیر کا آغاز کرنے والے اردگان اس دور کو پہلے فتح اور پھر کامیابی کے ساتھ ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن ان دنوں اس ملک کے معاشی حالات تنزلی کا شکار ہیں جبکہ ترکی میں اور سیاسی حریفوں سے نمٹتے ہوئے یہ واضح نہیں کہ اردگان دوبارہ جیت پائیں گے یا نہیں اس لیے کہ اس ملک میں گزشتہ ستمبر میں کرائے گئے ایک سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردگان کی سیاسی صورتحال زیادہ اچھی نہیں ہے اور وہ ماضی کا کرشمہ کھو چکے ہیں نیز ان کے حریف بھی ان کی اور جسٹس پارٹی کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں لہذا لگتا ہے کہ وہ اردگان کو اگلے الیکشن جیتنے نہیں دیں گے، پچھلے سال اردگان کی 6 اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے ایک وسیع میدانی مہم چلائی اور معاشرے کی نفسیاتی فضا میں "صدارتی حکومتی نظام” کے خلاف غصہ پیدا کرنے کے لیے بہت کچھ کیا جس کے بعد ترک معاشرے کا ایک اہم حصہ صدارتی نظام حکومت کو ایک غیر نگرانی شدہ اور خطرناک نظام سمجھتا ہے نیز اردگان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے حامیوں کا ایک بڑا حصہ بھی نہیں چاہتا کہ موجودہ نظام باقی رہے، ایسا نظام جس کے قیام کے لیے اردگان نے بہت کوششیں کی ہیں۔
یاد رہے کہ ستمبر میں کیے گئے ایک فیلڈ سروے میں پولنگ انسٹی ٹیوٹ آپریشنز نے اپنے سامعین سے پوچھا کہ کیا ترکی کی انتظامیہ کو صدارتی حکومتی نظام پر مبنی ہونا چاہیے یا پارلیمانی نظام پر تو 64.9% نے نے پارلیمانی نظام کے حق میں ووٹ دیا جبکہ صرف 29.1 فیصد صدارتی نظام کے حق میں تھے، جو یقیناً اردگان کے لیے اچھی خبر نہیں ہے،پولنگ انسٹی ٹیوٹ Yöneylem ریسرچ کی سربراہ داریا کومورجو نے کہا کہ ہمارے حالیہ انتخابات کے سب سے اہم نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ اردگان کے بارے میں ترک معاشرے کا تاثر سنجیدگی سے بدل گیا ہے، اس سے پہلے ترک شہریوں کا ایک قابل ذکر حصہ اردگان کو ایک ہوشیار اور ناقابل تسخیر سیاست دان مانتا تھا لیکن اب ان کا تصور بدل گیا ہے اور وہ خود کو صدر کے مقابلہ میں پاتے ہیں اس لیے کہ معاشی بحران اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی غیر موثر پالیسیوں کے دوران اس کے نتیجے میں حکومت نے اپنی کمزوری اور ناکامی کا مظاہرہ کیا ہے،اب بشار الاسد کی طرح ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ ترکی کے جون کے انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے اور ترکی کے سیاسی مستقبل میں کیا ہوگا؟ اور کیا ماسکو اردگان کے ساتھ ملاقات کے بارے میں اسد کی رائے کو تبدیل کر سکتا ہے اور یہ ملاقات انتخابات سے پہلے ہو گی؟