?️
سچ خبریں: 8 فروری کے انتخابات کے بعد اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں، پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام پانچ ماہ گزرنے کے باوجود حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک چلانے میں ناکام رہی ہیں۔
اگرچہ دونوں جماعتوں کے رہنما روزانہ کی بنیاد پر اتحاد کی بات کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں، لیکن ابھی تک کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے حالیہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ انہیں پی ٹی آئی پر کئی برسوں سے سنجیدہ تحفظات ہیں اور پی ٹی آئی نے ابھی تک کسی مذاکراتی ٹیم کا اعلان نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا پاور شیئرنگ سے انکار، مکمل مینڈیٹ ملنے تک مضبوط اپوزیشن کرنے کا اعلان
مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس کے بعد، پی ٹی آئی نے مذاکرات کے وقت کے تعین کے لیے اسد قیصر کو اختیار دیا اور پانچ رہنماؤں کے نام جے یو آئی کو بھجوائے ہیں۔ تاہم، دونوں جماعتوں کے درمیان ہونے والی گفت و شنید سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کئی بڑے اختلافات ہیں جو انہیں مل کر آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں۔
سینیئر سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کے مطابق، پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان سب سے بڑا اختلاف نظریاتی ہے۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمان وقت آنے پر فیصلہ کن پالیسی جاری کر سکتے ہیں، لیکن یہ اختلاف اب تک ایک بڑا رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔
حسن عسکری کے مطابق، مولانا کی اتحاد کے اندر خودمختاری کی خواہش بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں مستقبل کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جا سکتی، لیکن فی الحال یہ دو عوامل دونوں اپوزیشن جماعتوں کے عملی اتحاد میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کے مطابق، جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے اتحاد میں کئی عوامل حائل ہیں، جن میں سب سے بڑا تضاد دھاندلی پر موقف کا ہے۔ جے یو آئی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں دھاندلی ہوئی ہے جبکہ پی ٹی آئی وہاں سے جیتی ہے۔
پشاور کے سینیئر صحافی اسماعیل خان بھی اس بات سے متفق ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان کن حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے اس پر بڑا اختلاف ہے۔
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ نئے انتخابات کے انعقاد پر دونوں جماعتوں کی حکمت عملی بھی مختلف ہے۔ مولانا فضل الرحمان نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی نئے انتخابات کے لئے تیار نہیں ہے۔
انصار عباسی کے خیال میں، مشترکہ تحریک چلانے کی صورت میں دونوں جماعتوں کو کیا فائدہ ہوگا، یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں احتجاجی تحریکوں سے حکومت گرانا بہت مشکل ہے اور جب تک حکومت کو دستیاب حمایت ختم نہیں ہوتی، کسی بھی تحریک کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان مذاکرات
تاہم، اسماعیل خان کا ماننا ہے کہ مولانا فضل الرحمان ایک پریکٹیکل شخص ہیں اور وہ ضرورت پڑنے پر کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، لیکن پی ٹی آئی ابھی اس معاملے پر واضح نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان سمجھدار سیاستدان ہیں اور وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔


مشہور خبریں۔
ڈیموکریٹس کو AIPAC سے مالی امداد قبول نہیں کرنی چاہیے:برنی سندرز
?️ 15 جولائی 2025سچ خبریں: امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر برنی سندرز نے بااثر لابی گروپ AIPAC
جولائی
پی ٹی آئی میں دو طرح کی سوچ پائی جاتی ہے۔ ندیم افضل چن
?️ 28 اکتوبر 2025اسلام آباد (سچ خبریں) پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے
اکتوبر
علی امین گنڈاپور کالا باغ ڈیم پر بیان کی وضاحت کریں۔ گورنر خیبرپختونخوا
?️ 3 ستمبر 2025پشاور (سچ خبریں) گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے استفسار کیا
ستمبر
صیہونی جنرل کی زبانی حزب اللہ کی طاقت کا اعتراف
?️ 2 مارچ 2022سچ خبریں:صیہونی فضائیہ کے سابق کمانڈر نے حزب اللہ کے ڈرونز اور
مارچ
’جنرل باجوہ کی الیکشن میں پی ٹی آئی کی مدد‘، عارف علوی سے منسوب بیان کی تردید جاری
?️ 26 دسمبر 2022اسلام آباد:(سچ خبریں) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جنرل (ر) قمر
دسمبر
صہیونی فوج کا جنوبی غزہ پر راکٹ حملہ
?️ 26 جولائی 2021سچ خبریں:اسرائیلی فوج نے غزہ میں مزاحمتی دستوں سے تعلق رکھنے والے
جولائی
مجھ میں ہر طرح کے جذبات کُوٹ کُوٹ کر بھرے ہوئے ہیں، سجل علی
?️ 16 جنوری 2024کراچی: (سچ خبریں) اداکارہ سجل علی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ
جنوری
یو اے ای اور سعودی عرب کو اسلحے کی برآمد کی امریکی پابندی ختم
?️ 4 ستمبر 2022سچ خبریں:بائیڈن حکومت نے اقتصادی بحران اور چین کے ساتھ مسابقت کی
ستمبر