اسلام آباد (سچ خبریں) تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ہائیکورٹ کی سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے دائر انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کی۔
دوران سماعت لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ آئی ٹی انجینیئر ساجد محمود کی اہلیہ ماہرہ ساجد کی جانب سے دائر درخواست نمٹاتے ہوئے وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ لاپتہ شہری کے خاندان کو معاوضہ ادا کرے۔ عدالت کے اس ڈویژن بینج نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود سے اس حکم کے خلاف اپیل دائر کرنے کی وجہ دریافت کی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت نے ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا ہے۔
انہوں نے 1999ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایسے ہی ایک مقدمے میں حکومت پر 2 ہزار روپے جرمانہ عائد کرنے کا بھی حوالہ دیا۔ سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو یاد کروایا کہ وہ بھارتی عدالتوں کے کچھ حکم نامے پڑھیں کیونکہ حکومت پر جرمانہ عائد کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں بھی ایک اپیل دائر کی ، جس پر عدالت نے پوچھا کہ ’کیا یہ اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ کو اس کیس کی سماعت سے روکنے کے لیے کی گئی ہے؟‘ جس پر عدالت نے کہا کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے میں ڈیڑھ سال سے زیادہ تاخیر کی۔
جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ جس فائل میں انہوں نے دلائل تیار کیے تھے وہ اس فائل کو ساتھ لانا بھول گئے ہیں جس کی بنا پر سماعت ملتوی کردی جائے۔ جس پر جسٹس عامر فاروق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ عدالت کے ڈیکورم کا خیال رکھیں۔ ماہرہ ساجد کے وکیل عمر گیلانی نے کا کہنا تھا کہ ان کی موکلہ کے شوہر 2015ء میں لاپتا ہوئے تھے اور 60 سے زائد سماعتوں میں حکومت کا مؤقف یکساں رہا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ماہ تک کے لیے ملتوی کر دی۔