حکومت ’دہرے قرض‘ کے جال میں پھنس گئی

?️

اسلام آباد: (سچ خبریں) جولائی میں مرکزی حکومت کا ملکی قرض 537 ارب روپے ہوگیا جس سے ریاستی مشینری کے بڑھتے اخراجات کی نشاندہی ہوتی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی سال 25-2024 کے پہلے دن سے شروع ہونے والے ریونیو شارٹ فال کی وجہ سے مزید بھاری قرض لینا ضروری ہو گا۔

حکومت ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی پر ہی تقریباً تمام ٹیکس ریونیو خرچ کر رہی ہے جس کی وجہ سے وہ معاملات کو چلانے کے لیے مکمل طور پر قرض لینے پر مجبور ہے اور اس طرح سے ملک دوہرے قرضوں کے جال میں پھنس گیا ہے۔

مزید تفصیلات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جولائی میں ملک کا مجموعی قرضہ 68.91 ٹریلین سے بڑھ کر 69.60 ٹریلین ہوگیا، اس میں ایک ماہ کے دوران 690 ارب کا اضافہ ہوا ہے۔

مجموعی قرض 7.827 ٹریلین اضافے کے بعد69.604 ٹریلین ہوگیا جو جولائی 2023 میں 61.777 ٹریلین تھا۔

حکومت نے مالی سال 25 میں 9.3ٹریلین قرض لینے کا تخمینہ لگایا ہے تاکہ اپنے موجودہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پیسے کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔

وفاقی حکومت نے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے بجٹ کی مالی اعانت کے لیے مالی سال 24 میں ملکی بینکنگ سسٹم سے 22 فیصد کی غیرمعمولی شرح سود پر ریکارڈ 8.4 ٹریلین قرض لیا جس سے معیشت پر بہت زیادہ بوجھ پڑا، مالی سال 24 میں قرض سے متعلق ادائیگی 8.30 ٹریلین تک پہنچ گئی جو کہ بگڑتی معاشی صورتحال کو ظاہر کرتی ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے حالیہ اعداد و شمار نے بتایا کہ حکومت کا اندرونی قرضہ جو جون میں 47.160 ٹریلین تھا، 537 ارب اضافے کے بعد جولائی کے آخر میں 47.697 تک پہنچ گیا۔

تاہم اندرونی قرضہ جولائی 2023 کے 39.01 ٹریلین سے بڑھ کر 47.697 ٹریلین ہوگیا، اس میں 8.68 ٹریلین کا اضافہ ہوا تھا، گزشتہ 12 مہینوں کے دوران یہ بھاری قرضہ حکومت کو مالی سال 25 میں قرض کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینے پر مجبور کرے گا۔

حکومت کی جانب سے گزشتہ چند مہینوں کے دوران شرح سود میں 2.5 فیصد کی کمی کی گئی ہے، 12 ستمبر کو اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں 150 بیس پوائنٹس کی ایک اور کمی بھی متوقع ہے۔

ٹریژری بلز پر ریٹرن جو کہ حکومت کے لیے قلیل مدتی قرض لینے کا ایک اہم ذریعہ ہے کو پہلے ہی 16.99 فیصد تک کم کر دیا گیا تھا۔

شرح سود میں کمی قرض ادائیگی کے بوجھ کو کم کرے گی، تاہم 47.69ٹریلین اندورنی قرض ٹیکس کی پوری آمدنی کو استعمال کرنے کے لیے کافی ہے، وفاقی حکومت ڈیفالٹ جیسی صورتحال سے بچنے کے لیے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے لیکن ملکی اسٹیک ہولڈرز پر بھاری ٹیکس لگا رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مالی سال 24 میں شرح سود کو ریکارڈ 22 فیصد پر رکھا ہے جس نے پرائیویٹ سیکٹر کو بینکنگ مارکیٹ میں داخل ہونے سے روک دیا اور بینکنگ کی زیادہ تر رقم سرکاری کاغذات میں لگائی گئی۔

حکومت کی جانب سے بینکنگ سسٹم سے زیادہ قرض لینے کی وجہ سے قرض سے متعلق ادائیگی میں اضافہ ہورہا ہے اور نجی شعبے کے لیے مالی گنجائش کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے نجی شعبہ اپنی کاروباری سرگرمیاں کم کرنے اور بہتر وقت کا انتظار کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔

مشہور خبریں۔

اوباما اور بائیڈن سمیت متعدد شخصیات کے ٹویٹر اکاؤنٹس ہیک کرنے کے الزام میں برطانوی شہری کو گرفتار کرلیا گیا

?️ 23 جولائی 2021واشنگتن (سچ خبریں)  امریکا کے سابق صدر بارک اوباما اور موجودہ صدر

وزیرِ اعظم کی مستونگ روڈ پر خود کش حملے کی شدید مذمت

?️ 5 ستمبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وزیرِ اعظم عمران خان نے کوئٹہ میں مستونگ

وزیراعظم سے ایرانی صدر کی ملاقات، اسرائیل کیخلاف امت مسلمہ کے اتحاد پر زور

?️ 16 ستمبر 2025اسلام آباد (سچ خبریں) وزیراعظم محمد شہباز شریف کی دوحہ میں ہنگامی

پاکستان کے مضبوط دفاع کیلئے مستحکم معیشت ضروری ہے، ایئر چیف ظہیر بابر سدھو

?️ 4 جنوری 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) ایئر چیف ظہیر احمد بابر سدھو نے مضبوط

Unilever to continue producing teabags after Sariwangi bankrupt

?️ 13 اگست 2021 When we get out of the glass bottle of our ego

سعودی عوام کا حکومت کے خلاف مظاہرہ

?️ 2 فروری 2021سچ خبریں:ملک میں غربت اور بے روزگاری پھیلانے والی سعودی حکام کی

در مملکت صدر امریکا اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کے خواہاں

?️ 17 جولائی 2022اسلام آباد: (سچ خبریں)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ

یوکرین جنگ سے پیسہ کمانے پر یورپی یونین کی امریکہ پر کڑی تنقید

?️ 6 دسمبر 2022سچ خبریں:روس اور یوکرین کے درمیان جنگ شروع ہوئے نو ماہ گزرنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے