اسلام آباد:(سچ خبریں) توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے لیے آپریشن روکنے کی درخواست پر سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے زمان پارک آپریشن روکنے کے حکم میں 3 بجے تک توسیع کردی۔
زمان پارک پولیس آپریشن روکنے کی فواد چوہدری کی درخواست پر جسٹس طارق سلیم شیخ سماعت کر رہے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ پچھلے دو دنوں میں آپ نے پاکستان کو اور لاہور کو بحران سے بچایا ہے، لوگوں کی زندگیاں آپکی مداخلت سے بچی ہیں، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا آئی جی پنجاب نے بھی اچھا کردار ادا کیا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے کل آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب سے ملاقات کی، ہم نے عمران خان کی سیکیورٹی پر بات چیت کی، پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ ہم عمران خان کو قانون کے مطابق سیکیورٹی دیں گے، دوسرا معاملہ اتوار کے جلسے کا تھا ہم پیر کے روز لاہور میں جلسہ کریں گے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہم ریلی نہیں نکالیں گے، ہم جلسے کے لیے پانچ دن پہلے انتظامیہ کو آگاہ کریں گے، عمران خان کی حفاظتی ضمانت دائر ہو گئی ہے، ہماری استدعا ہے کہ آئی جی ہمارے کارکنان کو گرفتار نہ کریں، عدالت نے کہا کہ جن لوگوں نے زیادتی کی وہ ادھر سے یا دوسری طرف سے ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ، اب تو کیمرے لگے ہیں چہرہ صاف نظر آ جاتا ہے، آپ کی ساری باتوں میں ایک لیگل ایشو ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ دو معاملے ہیں کہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور ٹرائل کورٹ میں ہے، اس اسٹیج پر ہم کیسے حفاظتی ضمانت سن سکتے ہیں، وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان حفاظتی ضمانت کے لیے آپ کے پاس آئیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ہو سکتا ہے وہ کیس میرے پاس نہ بھی آئے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہمارا فیصلہ ہوا ہے کہ تحریک انصاف کا ایک فوکل پرسن ہو گا، ہم نے کہا ہے کہ کسی علاقے کو نو گو ایریا نہیں بننے دیا جائے گا، عدالت نے فواد چوہدری سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ لوگوں کو سیکیورٹی نہیں ملتی تو آپ آئی جی کو درخواست دیں جو ایک طریقہ کار ہے، اگر آپ مطمئن نہیں ہوتے تو عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ کینٹیرز لگانا مناسب نہیں یہ ہمیں ایکسپورٹ کے لیے استعمال کرنے چاہیے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ جو بھی چاہتے ہیں اس کو طریقہ کار کے مطابق کریں اور باقاعدہ درخواست دیں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ اگر ہمیں سرچ وارنٹ کی تعمیل کرانی ہے تو اس پر بھی عدالت حکم جاری کرے، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے مؤقف اپنایا کہ پولیس کی قانونی معاملات پورے کرنے کے لیے زمان پارک تک رسائی نہیں ہے، فواد چوہدری نے کہا کہ یہ لوگوں کو گرفتار کرنے کے لیے اجازت مانگ رہے ہیں انہوں نے ایک ایف آئی ار 2500 لوگوں کے خلاف درج کر دی ہے۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ دو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے ہیں ایک عمران خان اور ایک رانا ثناء اللہ کے خلاف، آئی جی پنجاب یہ بتائیں یہ کیا طریقہ کار رانا ثنا اللہ کے وارنٹ کی تعمیل کیوں نہ ہوئی، اس معاملے میں پولیس کی بدنیتی شامل ہے، میں یقین دہانی کراتا ہوں عمران خان یہاں پیش ہوں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ فرض کریں کہ ایک سول جج سے سمن آیا ہے تو آپ کیسے اسکی تعمیل کرائیں گے، وکیل عمران خان نے کہا کہ تعمیل کا قانون موجود ہے ۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ کی تعمیل ہو گی یا نہیں ہو گی یہ تب فیصلہ ہو گا جب پراسس سرور متعلقہ جگہ پر پہنچے گا، یہ تو نہر سے آگے جا ہی نہیں پا رہے، مہذب قوموں میں ایسا نہیں ہوتا۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم نے جائے وقوعہ وزٹ کرنا ہے ہمیں اجازت دی جائے ، فواد چوہدری نے کہا کہ ہم انہیں اجازت دے دیتے ہیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی، آپ سب لوگ بیٹھ کے مسئلے کا حل نکالیں ۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم جو بھی کریں گے عدالت کو بتائیں گے انتقامی کاروائی بالکل نہیں ہو گی، ہم جس کو گرفتار کریں گے انکے ساتھ قانون کی تحت برتاؤ ہو گا، عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ ان کو کیسے مطمئن کیسے کریں گے ، آپ اس سارے معاملے میں شفافیت کیسے لائیں گے ۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں ان سے اجازت نہیں لوں گا کہ فلاں بندے نے پولیس پر پٹرول بم مارا ہے ہم اسے گرفتار کرنے لگے ہیں، فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے کیپمین کیا کرنی ہے ہم تو اپنی روٹین کی زندگی نہیں گزار پا رہے، آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں یہ نہیں کر سکتا ہے کہ ثبوت لیکر ملزم کو کہوں جا بیٹا ضمانت کرا لے، ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ آئی جی صاحب کہ رہے ہیں کہ قانون کو اپنا راستہ بنانا چاہیے۔
عدالت نے فواد چوہدری سے مکالمہ کیا کہ عمران خان کی سیکیورٹی کے معاملے پر آپ لوگ متعلقہ حکام کو درخواست دے سکتے ہیں، عدالت نے ریمارکیس دیے کہ فریقین آپس میں بیٹھ کر حل نکالیں، آئی جی پنجاب نے کہا کہ اسلام آباد سے وارنٹ منسوخ کی درخواست خارج ہو چکی ہے، عدالت اس بارے فیصلہ کر دیے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس یہ کیس نہیں ہے، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ تین بجے دوبارہ کیسے سنیں گے
لاہور ہائیکورٹ نے سماعت تین بجے تک ملتوی کرتے ہوئے زمان پارک آپریشن روکنے کے حکم میں تین بجے تک توسیع کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک میں آپریشن روکنے کا گزشتہ روز جاری کیا گیا حکم آج (بروز جمعہ) تک برقرار رہے گا۔
جمعے کے روز زمان پارک کے باہر موجود ڈان ڈاٹ کام کے نمائندے نے بتایا کہ سابق وزیراعظم کی رہائش گاہ کے ارد گرد علاقے میں پولیس کہیں موجود نہیں جب کہ عمران خان کے گھر کے باہر پی ٹی آئی کے متعدد حامی موجود ہیں جنہوں نےکسی بھی ممکنہ پولیس آپریشن کی مزاحمت کرنے کے لیے لاٹھیاں اور پتھر اٹھائے ہوئے ہیں۔
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وارنٹ منسوخی اور ملک بھر میں درج مقدمات میں گرفتاری سے پولیس کو روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کردیں۔
عمران خان نے ملک بھر میں درج مقدمات میں گرفتاری سے روکنے کے لیے اسلام آبادہائیکورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ پی ڈی ایم حکومت کے آتے ہی ملک بھر میں روزانہ مقدمات درج ہورہےہیں، وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا، جان کو شدید خطرات ہیں، پورے ملک میں درج مقدمات کا ریکارڈ دیں۔
عمران خان نے اسلام آبادہائیکورٹ سے استدعا کی کہ پولیس کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتاری سے روک دیں، درخواست میں سیکرٹری داخلہ، چاروں صوبوں کے آئی جی پولیس اور ڈی جی ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔
عمران خان نے اپنے خلاف کیسز کی تفصیلات فراہمی کی پٹیشن بھی فائل کردی۔
رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ آفس نے سابق وزیراعظم کی وارنٹ منسوخی، درج مقدمات میں گرفتاری سے روکنے کی درخواستوں پر اعتراضات عائد کردیے۔
عمران خان کی دونوں پٹشنز پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات عائد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا بائیو میٹرک نہیں ہے ، جس معاملے پر پہلے ہائیکورٹ فیصلہ کر چکی دوبارہ کیسے سن سکتی ہے، رجسٹرار آفس نے اعتراض کیا کہ کسی پٹیشن پر کیسے بلیکنٹ آرڈر جاری کیا جا سکتا ہے؟
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست خارج کردی تھی اور انہیں 18 مارچ کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم برقرار رکھا گیا تھا، اس سے ایک روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کے لیے دائر درخواست خارج کردی تھی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پیر کو توشہ خانہ ریفرنس میں مسلسل عدم حاضری پر پی ٹی آئی سربراہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
عدالت نے پولیس کو سابق وزیراعظم کو گرفتار کرکے 18 مارچ تک عدالت میں پیش کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
عدالت کی جانب سے جاری کردہ ’وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد‘ کے لیے آپریشن منگل کی دوپہر کو شروع ہوا تھا جب پولیس اہلکار بکتر بند گاڑی میں عمران خان کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔
اسلام آباد کے ڈی آئی جی شہزاد ندیم بخاری کی قیادت میں پولیس نے مزاحمت کرنے والے پارٹی حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا، تاہم پی ٹی آئی کارکنوں نے پتھراؤ کیا۔
پولیس ٹیم آپریشن مکمل کرنے کے لیے پرعزم تھی، بعد ازاں زخمی ہونے والے ڈی آئی جی بخاری نے واضح الفاظ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے آئے ہیں اور آج انہیں ہر قیمت پر گرفتار کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی رضاکارانہ گرفتاری کے امکان کی پیشکش کر کے آپریشن کے پہلے مرحلے سے بچ گئی تھی لیکن یہ ایک تاخیری حربہ تھا کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے حامیوں کا ہجوم بڑھتا ہی گیا۔
بعد ازاں پی ٹی آئی کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے درمیان تصادم کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا اور حکومت پنجاب نے کہا کہ کارروائی میں 58 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں۔