اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکش کے باہر حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت دے دی۔
توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران جب پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کمرہ عدالت میں نہیں پہنچے تو جج ظفراقبال نے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ سماعت معمول کے مطابق ہونی چاہیے، صورت حال یہ ہے تو کیا کریں آپ ہی بتائیں۔
عمران خان کے وکیل بابراعوان نے جج سے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ نائب کورٹ کو باہر بھیج کر عمران خان کی حاضری لگانے کی اجازت دی جائے، جو حالات ہیں اس کے پیش نظر حاضری سے استثنیٰ دیا جانا چاہیے۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کا ایک کارکن کمرہ عدالت میں گھس آیا اور کہا کہ میں لاہور سے ان کے ساتھ رابطہ کرتا آرہا ہوں، ان پر پتھراؤ ہوا اور انہوں نے مجھے مارنا شروع کردیا۔
بابراعوان نے عدالت سے کہا کہ باہر بہت گڑبڑ ہے، آپ میری بات مان لیں آج استثنیٰ دے دیں، جس پر عدالت نے نائب کورٹ کو گیٹ پر عمران خان کے دستخط لینے کا حکم دے دیا۔
جج ظفراقبال نے کہا کہ گیٹ پر ہی دستخط لے لیں، یہی حاضری تصور ہوگی، آج سماعت واقعی ممکن نہیں ہے، دستخط ہوجائیں، پھر بات کرلیں گے، عمران خان کے دستخط ہونے کے بعد سب منتشر ہوجائیں۔
جج ظفراقبال نے کہا کہ عمران خان سے دستخط لیں اور انہیں کہیں یہاں سے چلے جائیں، اس دوران وکیل انتظار پنجوتا نے عدالت سے شکایت کی کہ ہمیں مارا جا رہا ہے، شبلی فراز کو ایس پی نوشیروان نے پکڑ لیا ہے۔
اہم پیش رفت
- جج ظفراقبال نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکس کے باہر حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت دے دی
- پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کی ایک دوسرے پر پتھراؤ اور شیلنک کا الزام
- پولیس نے زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ میں آپریشن کیا۔
- پی ٹی آئی کے سیکیورٹی خدشات کے سبب توشہ خانہ کیس کی سماعت جوڈیشل کمپلیکس منتقل کردی گئی۔
- اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ، سیکیورٹی کے سخت انتظامات
- پی ٹی آئی نےجوڈیشل کمپلیکس میں پارٹی اراکین کے داخلے پر پابندی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کردی۔
- عمران خان کا دعویٰ ہے کہ حکومت انہیں گرفتار کرکے انتخابی مہم کی قیادت کرنے سے روکنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس موقع پر عدالت نے شبلی فراز کو پیش کرنے کا حکم دے دیا اور پولیس نے شبلی فراز کو عدالت میں پیش کر دیا، جس کے بعد شبلی فراز، ایس پی اور نائب کورٹ کے ساتھ عمران خان کے دستخط لینے چلے گئے اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے دستخط ہونے تک سماعت ملتوی کردی گئی۔
عدالت میں موجود ڈان ڈاٹ کام کے رپورٹر نے تصدیق کی کہ آنسو گیس اور کھڑکیوں پر پتھراؤ کی وجہ سے کمرہ عدالت کے اندر لوگوں کو مشکل پیش آرہی تھی۔
عمران خان اور اس کا قافلہ اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پہنچا تو انہوں نے الزام عائد کیا کہ انہیں کمرہ عدالت میں پیش ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
توشہ خانہ کیس کی سماعت میں پیشی کے لیے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پہنچی تھی تو پولیس نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے کہا کہ عمران خان صاحب کا قافلہ جوڈیشل کمپلیکس کے عین سامنے موجود ہے، سیاسی کارکنان سے گذارش ہے کہ راستہ صاف کریں تاکہ عمران خان عدالت پہنچ سکیں۔
کیپیٹل پولیس نے کہا کہ مظاہرین کی جانب سے جوڈیشل کمپلیکس پر شیلنگ کی جا رہی ہے، پولیس کی چوکی کو آگ لگا دی ہے۔
دوسری جانب ٹوئٹر پر جاری بیان میں پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ پولیس کی جانب سے سری نگر ہائی وے پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر ہیوی شیلنگ کی جا رہی ہے۔
نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے آئی جی پنجاب کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم پر زمان پارک میں پولیس کارروائی کی گئی جس کے دوران پولیس پرحملے کیے گئے، زمان پارک کو ایک نو گو ایریا بنادیا گیا۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ زمان پارک میں کی جانے والی کارروائی کو 2 وجوہات پر روکا گیا، ایک وجہ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی اور دوسری وجہ یہ کہ پی ایس ایل میچ تھا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کے حکم پر پولیس آپریشن روکا گیا، اس کے بعد پیشیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، وہاں عدالت نے کلیئر کیا کہ تفتشی کے عمل کو نہیں روکا جا سکتا، عدالت یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کارروائی کو روکا جائے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ عدالت نے فریقین کو کہا کہ گھر کے اندر جانے کے لیے سرچ وارنٹ ہونا چاہیے تاکہ وہ صورتحال پیدا نہ ہو، تفتیش کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق جدید ترین ٹیکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے تصاویر، کیمروں کی مدد سے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے، جیو فینسنگ اور جیو ٹیگنگ کے ذریعے، اسپیشل برانچ، ڈیٹیکٹو فورٹس کانسٹبلز کی رپورٹ پر دیگر ایجنسیوں کے تعاون کے ساتھ دیگر عوامل کی مدد سے ان لوگوں کی فہرست تیار کی جو مختلف مقامات سے لاہور میں آتے ہیں اور شر پسندی پھیلاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کی نفری وہاں گئی تو دوبارہ شدید مزاحمت کی گئی، شدید مزاحمت کے بعد کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا، کسی بے گناہ شخص کی گرفتاری نہیں ڈالی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ گرفتار تمام لوگوں کو عدالت میں پیش کیا جائے گا، آج دوپہر 12 بجے ہم نے سرچ وارنٹ حاصل کیا اور اس سلسلے میں پی ٹی آئی لیڈرشپ سے رابطہ کیا، انہوں نے بتایا کہ عمران خان ابھی وہاں نہیں ہیں، ہم نے وہاں ان کا انتظار کیا، اس وقت بھی وہاں نفری موجود ہے اور قانون کے مطابق اجازت ملنے کے منتظر ہیں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ اس دوران ڈنڈوں، بنٹوں، غلیلوں کے ساتھ پولیس پر حملہ کیا گیا جس پر ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں گھر کی حدود سے اسلحہ بر آمد ہوا، اس کے علاوہ بھی وہاں اسلحہ موجود ہے، یہ بر آمد پیٹرول بم ہیں، ہم نے وہاں جگہ بھی دیکھی جہاں پیٹرول بم تیارکیے جاتے تھے، ریت کی بوریاں رکھ کر بنکر بنا کر نوگو ایریا کا ایک تاثر پیدا کیا جا رہا تھا۔
اس حوالے سے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زمان پارک سےدہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے، پیٹرول بم، بم بنانے کی چیزیں برآمد ہوئی ہیں، عمران خان فتنہ ہے، وہ ملک میں فساد اور افرا تفری کرنا چاہتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ زمان پارک کو نوگو ایریا کی حیثیت اختیار کر گیا تھا، وہاں آپریشن کیا گیا، وہاں سے کچھ ایسی چیزیں برآمد ہوئیں جو کبھی وزیرستان سے بر آمد ہوتی تھیں، اس حوالے سے آئی جی پنجاب کچھ دیر بعد حقائق قوم کے سامنے رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اشتعال دلانے کے باجود پولیس نے آج کا آپریشن بھی بغیر اسلحہ کے کیا گیا تاکہ انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے زمان پارک کی رہائش گاہ میں بغیر اجازت بم پروف بنکر بنایا ہوا تھا، وہاں تک پولیس ابھی نہیں گئی، جب وہ واپس گھر آئیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ وہاں کی تلاشی دیں، زمان پارک میں بم بنانے کی فیکٹری لگی ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ابھی ہم عمران خان کی گرفتاری کا سوچتے ہی ہیں کہ اتنے میں انہیں ریلیف مل جاتا ہے۔
اس حوالے سے عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’پنجاب پولیس نے زمان پارک میں میرے گھر پر حملہ کیا جہاں بشریٰ بیگم اکیلی ہیں، یہ کس قانون کے تحت کر رہے ہیں؟ یہ لندن پلان کا حصہ ہے جس میں ایک تعیناتی کے بدلے مفرور نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے وعدے کیے گئے تھے‘۔
قبل ازیں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ میرے تمام مقدمات میں ضمانت حاصل کرنے کے باوجود پی ڈی ایم حکومت مجھے گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، ان کے مذموم عزائم جاننے کے باوجود میں عدالت میں پیشی کے لیے اسلام آباد جا رہا ہوں کیونکہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں لیکن بدمعاشوں کے ناپاک ارادے سب پر واضح ہونا چاہئیں‘۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ لاہور میں میری رہائش گاہ کا محاصرہ کسی مقدمے میں میری عدالت میں حاضری کو یقینی بنانے کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد مجھے جیل بھیجنا تھا تاکہ میں اپنی انتخابی مہم کی قیادت نہ کر سکوں۔
انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’مجھے جیل میں ڈالنا لندن پلان کا حصہ ہے، یہ نواز شریف کی ڈیمانڈ ہے کہ عمران خان کو جیل میں ڈالو تاکہ وہ الیکشن میں حصہ نہ لے سکے‘۔
پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ لاہور میں پولیس زمان پارک میں عمران خان کے گھر کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر کاؤنٹ سے کی جانے والی ٹوئٹ کے مطابق عمران خان کی رہائش گاہ میں اس وقت صرف ان کی اہلیہ بشری بی بی اور ملازمین موجود ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق پنجاب پولیس کے اہلکار عمران کی رہائش گاہ کے داخلی دروازے سے رکاوٹیں ہٹا کر احاطے میں داخل ہوگئے، پولیس کو مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے ان پر اندر سے پتھراؤ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس نے اُن پر لاٹھی چارج ہوا، مبینہ طور پر کچھ کارکنوں کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق پولیس پی ٹی آئی سربراہ کے گھر کا دروازہ توڑ کر داخل ہوئی، اہلکاروں نے احاطے کے اندر قائم کیمپوں کو بھی اکھاڑ پھینکا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی جانب سے پولیس ٹیموں پر حملوں کی تحقیقات کے لیے عمران خان کی زمان پارک میں موجود رہائش گاہ کی تلاشی لینے کی درخواست منظور کی تھی۔
قبل ازیں زمان پارک کی پچھلی جانب گزرنے والی ٹھنڈی سڑک پر پولیس کی بھاری نفری پہنچ گئی تھی۔
پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں ڈنڈے جبکہ بکتر بند گاڑی بھی پولیس اہلکاروں کے ہمراہ موجود تھے۔
زمان پارک کی جانب آنے والے راستوں کو کنٹینرز لگا کر ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا تھا، پولیس کا زمان پارک کے باہر آپریشن کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا۔
قیدیوں کی گاڑی بھی مال روڈ کے قریب پہنچا دی گئی، کینال روڈ پر 2 کرینیں اور واٹر کینن بھی پہنچا دی گئی تھی۔
کارکنان کی بڑی تعداد ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے کینال روڈ پر نکل آئی جو پولیس سے مقابلے کے لیے پتھر اکٹھے کرنے لگے تھے۔