سچ خبریں: امریکا نے آن لائن سرچنگ میں گوگل کی غیرقانونی اجارہ داری کے خاتمے پر کام شروع کردیا۔امریکی محکمہ انصاف نے کہا ہے کہ وہ جج کو کہہ سکتا ہے کہ گوگل کو آن لائن سرچنگ میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کیلیے کروم اور اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کے غیرقانونی استعمال سے روکا جائے۔
رواں سال اگست میں ایک تاریخی مقدمے کی سماعت کے دوران امریکی عدالت کو بتایا گیا تھا کہ امریکا میں 90فیصد انٹرنیٹ سرچنگ کا جائزہ لینے والی کمپنی گوگل نے غیر قانونی اجارہ داری قائم کررکھی ہے۔
امریکی خبررساں ادارے’رائٹرز’ کے مطابق محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ گوگل کی غیرقانونی اجارہ داری کے تدارک کیلیے اسکا مجوزہ حل امریکیوں کیلیے معلومات کے حصول کے طریقے کو نئی شکل دے سکتا ہے جبکہ اسکی مدد سے گوگل کی آمدنی میں کمی لاکر اور اس کے حریفوں کو پھلنے پھولنے کے لیے مزید گنجائش فراہم کی جاسکتی ہے۔
محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ ان نقصانات کو مکمل طور پر دور کرنے کے لیے نہ صرف گوگل کا تقسیم پر موجودہ کنٹرول ختم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ گوگل مستقبل میں بھی اس تقسیم کو اپنے کنٹرول میں نہ رکھ سکے۔
پراسیکیوٹرز نے کہا کہ مجوزہ اصلاحات کا مقصد گوگل کی ماضی کی سبقت کو مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے کاروبار تک پھیلانے سے روکنا بھی ہوگا۔
محکمہ انصاف عدالت سے یہ استدعا بھی کرسکتا ہے کہ گوگل کی جانب سے اپنے سرچ انجن کونئے آلات میں پہلے سے انسٹال یا بطور ڈیفالٹ سیٹ کرنے کیلیے کی گئی ادائیگیاں ختم کردی جائیں ۔
گوگل نے ایپل سمیت موبائل فونز تیار کرنے والی دیگر کمپنیوں کو 2021 میں 26.3 ارب ڈالر کی سالانہ ادائیگیاں کی تھیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کا سرچ انجن اسمارٹ فونز اور براؤزرز پر ڈیفالٹ رہے اور اس کے مارکیٹ شیئر کو مضبوط رکھا جائے۔
گوگل نے محکمہ انصاف کی تجاویز کو انتہاپسندانہ قرار دیتے ہوئے ایک کارپوریٹ بلاگ پوسٹ میں کہا ہے کہ وہ اس کیس میں مخصوص قانونی مسائل سے بہت آگے ہیں۔
گوگل کا کہنا ہے کہ اس کے سرچ انجن نے اپنے معیار سے صارفین کا اعتماد حاصل کیا ہے ، اسے ایمیزون اور دیگر سائٹس سے سخت مقابلے کا سامنا ہے جب کہ صارفین دوسرے سرچ انجنوں کو بطور ڈیفالٹ منتخب کر سکتے ہیں۔
2ارب ڈالر کے مارکیٹ کیپٹلائزیشن کی حامل دنیا کی چوتھی بڑ ی کمپنی ایلفابیٹ کو اپنے حریفوں اور عدم اعتماد کے حامل حکام کے بڑھتے ہوئے قانونی دباؤ کا سامنا ہے۔
ایک امریکی جج نے پیر کو ایک علیحدہ مقدمے میں فیصلہ سنایا ہے کہ گوگل کو اپنے منافع بخش ایپ اسٹور پلے کو زیادہ سے زیادہ مسابقت کے لیے کھولنا چاہیےاور حریف کمپنیوں کی اینڈرائیڈ ایپس کو اس تک رسائی دینی چاہیے ۔
گوگل محکمہ انصاف کے ساتھ بھی قانونی جنگ میں مصروف ہے جو اس کے ویب اشتہارات کے کاروبار پر ضرب لگانا چاہتا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے گوگل کی اجارہ داری کو مصنوعی ذہانت تک پھیلانے سے روکنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر کہا ہے کہ وہ گوگل سرچ اور اے آئی کی مدد سے تلاش کی خصوصیات کے لیے استعمال کیے جانے والے اشاریہ جات، ڈیٹا اور ماڈلز اسکے حریفوں کو مہیا کرانے کی کوشش کر سکتا ہے۔
استغاثہ کی دیگر تجاویز میں گوگل کو ایسے معاہدوں سے روکنا بھی شامل ہے جو مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے اسکے دیگر حریفوں کی ویب مواد تک رسائی محدود کرتے ہیں اور ویب سائٹس کواپنے اے آئی ماڈلز کی تربیت کیلیے گوگل کا مواد استعمال کرنے سے روکتے ہیں ۔
گوگل نے کہا کہ اے آئی سے متعلق محکمہ انصاف کی تجاویز اس شعبے کا گلا گھوٹ سکتی ہیں،ایسے وقت میں جب ہمیں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے ، حکومت کی جانب سے اس اہم صنعت کو دبانا سرمایہ کاری میں کمی اور ابھرتے ہوئے کاروباری ماڈلز کو روکنے کا سبب بن سکتا ہے۔
توقع ہے کہ محکمہ انصاف 20 نومبر تک عدالت میں مزید تفصیلی تجاویز پیش کرے گا جبکہ گوگل بھی 20دسمبر تک اپنی تجاویز پیش کرسکتا ہے ۔
واشنگٹن کی ڈسٹرکٹ جج امیت مہتا کا فیصلہ عدم اعتمادکرنے والوں کے لیے ایک بڑی فتح تھی جنہوں نے گزشتہ چار سالوں میں بڑی ٹیک کمپنیوں کے خلاف مقدمات کا ایک پرجوش سلسلہ شروع کررکھا ہے۔
امریکا نے میٹا پلیٹ فارمز، ایمیزون ڈاٹ کام اور ایپل کے خلاف بھی دعویٰ کیا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر اجارہ داری برقرار رکھتے ہیں۔
گوگل کی اجارہ داری کے خاتمے کیلیے پیش کی گئی محکمہ انصاف کی کچھ تجاویز کی گوگل کے چھوٹے حریفوں جیسا کہ جائزے کی سائٹ ییلپ اور حریف سرچ انجن کمپنی ڈک ڈک گو کی توجہ حاصل کی تھی۔
ییلپ نے اگست میں گوگل پر سرچ کے حوالے سے مقدمہ کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ گوگل کے کروم براؤزر اور اے آئی سروسز کی بندش زیر بحث آنی چاہیے۔ییلپ یہ بھی چاہتا ہے کہ گوگل کو سرچ کے نتائج میں گوگل کے مقامی کاروباری صفحات کو ترجیح دینے سے منع کیا جائے۔