برسلز (سچ خبریں) امریکا اور برطانیہ نے میانمار میں باغی فوج کی جانب سے عوام کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن اور دہشت گردی کے بعد میانمار کی باغی فوج کے خلاف اہم قدم اٹھاتے ہوئے فوجی گروپ جنتا پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کے مطابق بین الاقوامی سطح پر مذمت نے اب تک اس وحشیانہ اقدام کو روکنے کے لیے بہت کم کام کیا ہے تاہم امریکا اور برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ میانمار اکنامک ہولڈنگز لمیٹڈ کے انتہائی خفیہ معاملے کے خلاف پابندیاں عائد کرے گا جس سے فوج کے سربراہوں کو بے پناہ دولت تک رسائی حاصل ہے۔
برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ ڈومینک راب نے کہا کہ آج کی پابندیوں سے فوجیوں کے مالی مفادات کو نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ ان کی شہریوں کے خلاف ظلم و ستم کی مہم کے لیے مالی وسائل ختم ہوسکیں، واشنگٹن نے اعلان کیا کہ وہ میانمار اکنامک کارپوریشن لمیٹڈ (ایم ای سی) پر بھی پابندیاں عائد کررہا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ میانمار کی فوج نے ان ہولڈنگ اداروں کے ذریعے ملک کی معیشت کے اہم حصوں کو کنٹرول کیا ہے، مبہم گروہوں کا شراب، تمباکو، ٹرانسپورٹ، ٹیکسٹائل، سیاحت اور بینکنگ جیسے متنوع صنعتوں میں اپنا ٹھکانہ ہے۔
علاوہ ازیں مظاہرین نے فوج سے ملک کی حکومت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے رات کے وقت میں کرفیو کو توڑتے ہوئے مردہ افراد کے لیے جلائی گئی موم بتیوں کی نگرانی کی اور سیکیورٹی فورسز سے بچنے کے لیے صبح سویرے سڑکوں پر احتجاج کیا۔
شمالی کاچن ریاست میں موٹرسائیکلوں پر طلوع آفتاب کے وقت موبائل ریلی نکالی گئی جس پر متعدد مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔
جنوب مشرقی کیرن ریاست کے شہر ہپا-این میں مظاہرین جمعرات کی صبح 6 بجے کے قریب سینڈ بیگ تیار کررہے تھے جب متعدد فوجی اور پولیس اہلکار وہاں پہنچے اور اچانک دستی بموں کا استعمال کرتے ہوئے سڑکوں کو صاف کرنے کی کوشش کی۔
احتجاج میں شامل ایک شخص نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے ربر کی گولیوں کے ساتھ ساتھ اصلی گولیوں کے 50 راؤنڈ فائر کیے، ان کا کہنا تھا کہ ایک طالب علم کو براہ راست راؤنڈ سے ران میں گولی لگی اور اب اس کا طبی علاج ہورہا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق چند لوگوں نے ایسے پلے کارڈ پکڑ رکھے تھے جن پر لکھا تھا نکل جاؤ دہشت گرد آمر۔
اقوام متحدہ، امریکا اور برطانیہ کی جانب سے بین الاقوامی دباؤ میانمار کی فوجی گروپ جنتا پر موجود ہے تاہم اب تک اسے بظاہر نظرانداز کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یکم فروری کو سویلین رہنما آنگ سان سوچی کو گرفتار کرنے اور ان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے خلاف ملک گیر مظاہروں کو روکنے کے لیے فوج نے خونریز تشدد کا آغاز کررکھا ہے۔