الاسکا (سچ خبریں) امریکا اور چین کے مابین الاسکا میں امن مذاکرات شروع تو ہائے لیکن یہ مزاکرات امن پیدا کرنے کے بجائے مزید تناؤ کا باعث بن گئے جس کے بعد دونوں ممالک میں ایک بار پھر سرد جنگ شروع ہوگئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکا اور چین کے درمیان ٹرمپ دور میں پیدا ہونے والے اختلافات اور اس کے نتیجے میں جاری سرد جنگ مزید شدید ہوتی جا رہی ہے، کئی بار مذاکرات کی پیش رفت کے باوجود وائٹ ہاؤس کی ہٹ دھرمی اور یکطرفہ اقدامات کے باعث کم ہوتے فاصلے مزید وسیع ہو جاتے ہیں۔
موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن بھی چین کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں اپنے پیش رو کے نقش قدم پر چلتے دکھائی دیتے ہیں، جس کی اہم مثال 2 روز قبل ہی سامنے آئی تھی، جس میں امریکا کی جانب سے چین کی 24 شخصیات پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں، جس کے ردعمل میں بیجنگ حکومت کا کہنا تھا کہ امریکی اقدامات بیجنگ کی خارجہ پالیسی پر حملے اور اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہیں۔
خبر رساں اداروں کے مطابق گزشتہ روز دونوں ممالک کے سفارت کاروں کی امریکی ریاست الاسکا میں ہونے والی ملاقات بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی، جس میں دونوں جانب سے ایک دوسرے پر شدید الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے افتتاحی کلمات ہی میں چین کو عالمی استحکام کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کے ساتھ دیگر معاملات کے ساتھ ایغور مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم اور ہانگ کانگ پر بھی بات چیت ہوگی، چین نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ امریکا اندرونی معاملات میں دخل اندازی بند کردے۔
واضح رہے کہ جوبائیڈن کے دور صدارت میں چین کے ساتھ یہ پہلا اعلیٰ سطح کا اجلاس ہے، جس کی میزبانی بھی خود امریکا ہی کررہا ہے، جس میں واشنگٹن کی نمایندگی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلوان جب کہ چینی وفد کی قیادت بیجنگ کے اعلیٰ سفارت کار یانگ جیایچی اور اسٹیٹ قونصلر وانگ یی نے کی۔
اجلاس کی ابتدا میں چین پر یکطرفہ پالیسیاں بنانے، سائبر حملوں اور اپنے اتحادیوں پر معاشی دباؤ ڈالنے کے الزامات عائد کیے، مذاکرات کے دوران چینی سفیر نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ چین کسی بھی معاملے پر کوئی سمجھوتا کرے گا، امریکا خود اپنی عسکری اور معاشی طاقت کے زور پر دوسرے ممالک کو دباتا ہے۔