?️
مشرق وسطی میں نئے ابھرتے سیاسی اور اقتصادی حالات
حالیہ برسوں میں خاورمیانہ میں ہونے والی تبدیلیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خطے میں ایک نیا رجحان ابھر رہا ہے۔ اس بار حالات کو صرف سکیورٹی کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ اقتصادی اور جیوپولیٹیکل پہلوؤں سے بھی سمجھنا ضروری ہے۔
خطے میں جاری تبدیلیاں مختلف اقتصادی منصوبوں، نئے رابطہ راستوں، مالی معاہدوں اور سرمایہ کاری کے مواقع کی صورت میں سامنے آ رہی ہیں، جو بتاتی ہیں کہ اب طاقت کے روایتی فوجی پہلو کی بجائے اقتصادی فوائد اور سرمایہ کاری زیادہ اثر رکھتی ہیں۔ اس طرح خاورمیانہ کی پرتشدد جغرافیہ آہستہ آہستہ اقتصادی منافع اور تجارتی مواقع کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔
یہ تبدیلیاں اچانک نہیں آئیں بلکہ متعدد عوامل کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں۔ امریکی حملے کے بعد عراق (2003) سے یہ واضح ہو گیا کہ براہ راست فوجی مداخلت مہنگی اور غیر مستحکم ثابت ہوتی ہے، اور اسی وجہ سے 2021 میں امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجی دستے واپس بلا لیے، جس کا واضح پیغام یہ تھا کہ خطے میں امریکی فوجی اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے۔
اسی دوران چین اور روس کی خطے میں موجودگی بڑھتی گئی اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی نے اقتصادی منصوبوں اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی جانب توجہ دی۔
آج بڑے منصوبے جیسے بھارت-خاورمیانہ-یورپ رابطہ راستہ، چین کی نئی ریشم روڈ اور خلیج فارس-ترکی-یورپ تجارتی محور، اب صرف بنیادی یا لاجسٹک منصوبے نہیں بلکہ خاورمیانہ کو ایک نئے اقتصادی نقشے کی طرف لے جانے والے اقدامات ہیں۔ اب خطے میں مقابلہ ریلوے لائنز، قدرتی گیس کی قیمتوں اور درآمدات کے آسان بنانے پر ہے۔
خاورمیانہ طویل عرصے تک توانائی کے وسائل کے حوالے سے مشہور رہا اور اس کا نام ہمیشہ جنگ اور بحران سے جڑا رہا۔ تاہم اب اس خطے کے حالات کو اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔
مثال کے طور پر سعودی عرب 2015 تک اپنی معیشت میں 90 فیصد سے زیادہ تیل کی آمدنی پر انحصار کرتا تھا، لیکن ویژن 2030 کے تحت اس نے تیل پر انحصار کم کیا اور غیر تیل کی سرمایہ کاری کو فروغ دیتے ہوئے 30 ارب ڈالر سالانہ کی سرمایہ کاری کی۔ نیوم سٹی جیسے منصوبے، جس پر 500 ارب ڈالر خرچ کیے گئے، اب عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت اور قابل تجدید توانائی کے مرکز بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات بھی اسی طرح عالمی مالیاتی اور تجارتی مرکز بننے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ قطر دنیا کا سب سے بڑا قدرتی گیس برآمد کنندہ ہونے کے ناطے اپنی آمدنی سے ایک وسیع سیاسی اور میڈیا نیٹ ورک قائم کر چکا ہے۔
تاہم خطے کے کچھ ممالک، جیسے عراق، ان تبدیلیوں میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ عراق، جس کے پاس تیل کے ذخائر اور دیگر قدرتی وسائل ہیں، اقتصادی اصلاحات اور بیرونی سرمایہ کاری کے فقدان کی وجہ سے تیل پر 92 فیصد انحصار کرتا ہے اور مستحکم ترقی حاصل نہیں کر سکا۔
تحلیل کاروں کے مطابق، اگر عراق سرمایہ کاری کو فروغ دے اور اصلاحات کرے تو وہ خاورمیانہ کی نئی اقتصادی دنیا میں شامل ہو سکتا ہے، ورنہ اسے پیچھے رہنا پڑے گا۔
متوقع ہے کہ 2030 تک خطے میں بڑے اقتصادی منصوبے مکمل ہو جائیں گے اور اس وقت واضح ہو گا کہ ہر ملک اقتصادی ترقی میں کس حد تک کردار ادا کر رہا ہے۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
امریکہ یورپ کو کمزور کرنا چاہتا ہے: روس
?️ 29 مارچ 2022سچ خبریں:روسی سلامتی کونسل کے سربراہ نے کہا کہ امریکہ یورپیوں کو
مارچ
"جولانی”: میں اسرائیل پر بھروسہ نہیں کرتا، لیکن ہم جلد ہی ایک معاہدے پر دستخط کریں گے
?️ 20 ستمبر 2025سچ خبریں: شام پر حکمرانی کرنے والے دہشت گردوں کے رہنما نے
ستمبر
پی ٹی آئی اب مضبوط ترین پارٹی بن کر ابھرے گی
?️ 17 نومبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ
نومبر
شمالی یمن پر امریکی اور برطانوی فضائی حملے
?️ 10 نومبر 2024سچ خبریں: یمنی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ امریکی اور
نومبر
غزہ جنگ میں امریکہ کو مصر کی ضرورت کیوں ہے اور مصر کیوں نظر انداز کر رہا ہے؟امریکی اخبار کی زبانی
?️ 5 دسمبر 2023سچ خبریں: مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے سی آئی اے کے
دسمبر
غزہ کی عوام کو صیہونیوں کے ہاتھوں ہونے والا مالی نقصان
?️ 5 دسمبر 2023سچ خبریں: غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کی وجہ سے ہونے والے
دسمبر
اسرائیل کے خلاف دردناک مراحل کا آغاز؛عطوان کی زبانی
?️ 20 اکتوبر 2024سچ خبریں: اس سے پہلے جب شیخ نعیم قاسم نے صیہونیوں کے
اکتوبر
اسلام آباد ہائیکورٹ کا الیکشن ٹریبونل کو این اے 48 سے متعلق کارروائی روکنے کا حکم
?️ 20 دسمبر 2024 اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے
دسمبر