سچ خبریں:ترکی میں ان دنوں اردوغان کی حکومت اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی تمام تر توانائی اور توجہ اشتہاری مہم اور انتخابات جیتنے کی کوششوں پر مرکوز ہے۔
نے ایک بار پھر شام کی سلامتی سے متعلق اہم ترین مسائل پر بات چیت کا موقع فراہم کیا۔ ترک حکومت نے امید ظاہر کی کہ وزیر دفاع ہولوسی آکار اور ترک انٹیلی جنس سروس کے سربراہ ہاکان فیدان اس ملاقات میں پورے ہاتھوں سے واپس آئیں گے۔ لیکن اردوغان کی ٹیم اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے زیر کنٹرول میڈیا کی پوزیشنوں پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ آنکارا نے ابھی تک کوئی پوائنٹ حاصل نہیں کیا ہے اور اسد حکومت ترکی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے ہچکچا رہی ہے۔
اب سب جانتے ہیں کہ اردگان کی اسد سے ملاقات کی بڑی خواہش ہے لیکن شامی صدر نے معقول شرائط رکھی ہیں اور ان شرائط کو پورا کیے بغیر اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھنے کو تیار نہیں۔
چند ماہ قبل اردوغان کے ساتھیوں کا ایک وفد ڈوگو پرنسیک کی سربراہی میں ترکی کی خیر سگالی ثابت کرنے اور شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کے لیے دمشق جانا تھا۔ لیکن یہ سفر ابھی مکمل نہیں ہوا ہے اور اردگان کے بعض متضاد فیصلوں کی وجہ سے مذاکرات کے کئی دور بے نتیجہ رہے ہیں۔
پرنسیک نے مضبوطی سے اعلان کیا تھا کہ سب کچھ تیار ہے اور وہ اپنے متعدد نائبین اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے سرکردہ ارکان کے ساتھ دمشق میں اسد کے مہمان ہوں گے۔ لیکن بظاہر ترکی کے سیکورٹی ایجنٹوں اور غیر ملکی ماہرین کے دو گروپ جو اس سفر کے لیے راستے کو ہموار کرنے والے تھے، دمشق کا حتمی اطمینان حاصل نہیں کر سکے۔
چاوش اوغلو اور ان کے ساتھیوں کے موقف سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے بارہا روس اور ایران سے کہا ہے کہ وہ اردوغان اور بشار اسد کے درمیان ملاقات کی تیاری کے لیے ثالثی کریں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شام کی درخواستیں ایسے مسائل نہیں ہیں جنہیں کسی ثالث کی طرف سے قبول یا مسترد کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ایک حساس فیصلہ ہے جو خود ترک حکام کو لینا چاہیے۔
کہانی یہ ہے کہ اسد نے ثالثی کرنے والے سفارت کاروں کو آگاہ کیا کہ شام سے ترک فوجیوں کا انخلا ایک اہم اور اہم ضرورت ہے۔ اسد کو اس حقیقت کے بارے میں بھی سخت شکایت ہے کہ 200,000 شامی ملیشیا بحیثیت مسلح مخالفین ترکی کی مالی اور ہتھیاروں کی حمایت میں ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ ترکی ان ملیشیاؤں کی حمایت ختم کرے۔
آخر میں یہ کہنا چاہیے کہ شام کے حوالے سے ترکی کا سیاسی-سیکیورٹی نقطہ نظر ان مسائل میں سے ایک ہے جو آنے والے انتخابات کے نتائج پر براہ راست اثر انداز ہوں گے۔ اگر اردگان کے مخالفین اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں تو شام کے معاملے کے حوالے سے کلیچدار اوغلو کا پہلا ہدف اور ترجیح شامی مہاجرین کو ان کے ملک میں واپس بھیجنے کی کوشش ہو گی اور شامی ملیشیاؤں کے لیے مہم جوئی اور حمایت ممکنہ طور پر ختم ہو جائے گی۔