سچ خبریں:ایک امریکی نیوز ویب سائٹ نے واشنگٹن کے ایک سرکاری عہدہ دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ 900 فوجیوں کی موجودگی کے ساتھ شام میں امریکی مشن جاری رہے گا۔
امریکی حکومت کے ایک عہدیدار نے پولیٹیکو کو بتایا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس دعوے کے باوجود کہ مشرق وسطی (مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ) میں طویل جنگیں ختم ہوچکی ہیں، 900 کے قریب امریکی فوجی شام میں موجود ہیں، امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ مسلسل موجودگی کا مقصد شامی کرد فورسز کی تربیت اور انھیں مشورے دینا ہے ۔
انھوں نے مزیدکہاکہ اس وقت میں ہمارےمشن میں کسی تبدیلی یا شام میں موجود فوجیوں کی تعداد میں کمی کی توقع نہیں کروں گا،واضح رہے کہ اس سے قبل پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے اس سوال کے جواب میں کہ شام کی سرزمین پر اس وقت کتنے امریکی فوجی موجود ہیں،کہا کہ ابھی میرے ذہن میں فوجیوں کی تعداد نہیں ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ ایک ہزار سے کم فوجی شام ہیں ،ٹھیک تعداد معلوم کرنے کے لیے مجھے پوچھنا پڑے گا۔
شام میں امریکی موجودگی پر عراق کے ساتھ اسٹریٹجک مذاکرات کے اثرات کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہاکہ عراق اور شام میں اتحادیوں کی کاروائیوں کے مابین رابطہ ہے،تاہم مجھے ابھی تک معلوم نہیں کہ ان مذاکرات سے کیا فیصلے سامنے آئیں گے اور شام میں ان کی موجودگی پر اثر پڑے گا۔
پینٹاگون کے عہدیدار کے مطابق عراق اور شام میں امریکی مشنوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے کیونکہ جب سن 2014 میں داعش کا وجود سامنے آیا تو اس نے شام کو عراق میں تربیت ، بھرتی اور تیاریوں کے میدان کے طور پر استعمال کیا ۔
واضح رہے کہ شام کے بیشتر شمال مشرقی علاقے ، بشمول تیل و توانائی کے صوبے جیسے الحسکہ ، دیر الزور اور الرقہ شام کی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے زیر کنٹرول ہیں ، جسے امریکہ کی زیرقیادت اتحاد کی حمایت حاصل ہے۔