کیا حقیقت میں امریکہ غزہ میں امن چاہتا ہے یا سیاسی فریب ہے؟

کیا حقیقت میں امریکہ غزہ میں امن چاہتا ہے یا سیاسی فریب ہے؟

?️

سچ خبریں:امریکہ خود کو غزہ میں امن کا حامی اور ثالث ظاہر کرتا ہے، مگر شواہد بتاتے ہیں کہ وہ دراصل اسرائیل کی جنگی مشین کا فعال شریک ہے

غزہ جنگ سے جو شواہد اور اعداد و شمار سامنے آتے ہیں وہ امریکہ کے کردار کی ایک صاف اور غیر مبہم تصویر پیش کرتے ہیں؛ ایک ایسے ملک کی تصویر جو نہ صلح کا ثالث ہے، نہ امن‌دوست، بلکہ اسرائیل کی جنگی مشین کا بنیادی شریک ہے۔

غزہ کی جنگ میں امریکہ کا کردار، اکتوبر 2023 سے اب تک، اس بحران کا سب سے متنازع اور اہم پہلو بن چکا ہے اگرچہ واشنگٹن خود کو ہمیشہ ایک امن‌ساز طاقت اور علاقائی استحکام کے ضامن کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے نہ صرف اس جنگ کے تسلسل میں کردار ادا کیا بلکہ اپنی مالی و عسکری طاقت سے اسرائیل کے ظلم و جارحیت کو مضبوط کیا۔

یہ بھی پڑھیں:حماس کو غیر مسلح کرنے کی بات غیر منطقی ہے، غزہ کے مستقبل کا فیصلہ فلسطینی کریں گے

صیہونی جنگی مشین اور امریکی سرمایہ

امریکہ اور اسرائیل کے درمیان فوجی و مالی تعلقات کی تاریخ پرانی ہے، لیکن غزہ کی حالیہ جنگ میں یہ تعلق ایک بے مثال شدت اختیار کر گیا،
1948 میں اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک، امریکہ اس کا سب سے بڑا عسکری معاون رہا ہے۔ اربوں ڈالر کے طویل المدت معاہدے، ہتھیاروں کی فروخت اور مالی امداد  سب کچھ اسرائیل کی فوجی برتری کے نام پر جاری رہا، مگر حقیقت میں اس نے تشدد اور قبضے کی پائیداری کو یقینی بنایا۔

اوباما حکومت کے دور میں طے پانے والے 10 سالہ دفاعی معاہدے کے تحت، امریکہ ہر سال ۳308۸ ارب ڈالر کی فوجی امداد اسرائیل کو دینے کا پابند ہے۔ تاہم، اکتوبر 2023 کے بعد، امریکہ نے ہنگامی بنیادوں پر اضافی فوجی امداد فراہم کی، جس کی مالیت 2024 کے اختتام تک 17.9 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔
آزاد تحقیقی مراکز کے مطابق، غیرمستقیم امداد، اسلحہ فروخت، اور خفیہ آپریشنز کو شامل کیا جائے تو یہ رقم 30 ارب ڈالر سے زیادہ بنتی ہے۔

امریکی عوام کا ٹیکس، اسرائیلی بمباری کا ایندھن

یہ رقوم امریکی شہریوں کے ٹیکس سے ادا کی جاتی ہیں، یعنی ہر امریکی شہری ایک دور دراز جنگ کے لیے مالی طور پر شریک بنایا گیا ہے۔
اعداد کے مطابق، اگر غزہ جنگ پر خرچ ہونے والی کل رقم کو امریکی ٹیکس دہندگان پر تقسیم کیا جائے، تو ہر شخص اوسطاً ۸۵ تا ۱۶۵ ڈالر اس جنگ کے لیے ادا کر چکا ہے۔

یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ کے اندرونی ریاستیں صحت، تعلیم، مسکن اور ماحولیات کے بحران سے دوچار ہیں۔
مثلاً 2024 میں ماحولیاتی تحفظ کے بجٹ میں کمی کی گئی، مگر اسرائیل کو فوجی امداد میں اضافہ ہوا۔ اسی رقم سے ۶ ملین امریکی بچوں کے لیے طبی بیمہ یا سینکڑوں ہزار نئے اساتذہ کی بھرتی ممکن تھی — مگر ترجیح جنگ کو دی گئی۔

جنگی منافع خوری اور ہتھیاروں کی کمپنیاں

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کو دی جانے والی امریکی امداد دراصل امریکی ہتھیار ساز کمپنیوں کے مفاد میں جاتی ہے۔
معاہدوں کے تحت اسرائیل کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ انہی کمپنیوں سے ہتھیار خریدے — یعنی پیسہ لاکهیڈ مارٹن، بوئنگ اور ریتیون جیسی کمپنیوں کے پاس واپس آتا ہے۔
یوں امریکہ کا امن دراصل جنگ سے منافع کمانے والا معاشی ڈھانچہ بن چکا ہے۔

غزہ کا المیہ اور امریکی دوغلاپن

غزہ کے زمینی حقائق اس دوغلے پن کو بے نقاب کرتے ہیں، ہزاروں شہید، لاکھوں بے گھر، تباہ شدہ اسپتال اور وہ بچے جو امریکی ساختہ بموں کا شکار ہوئے — یہ سب امریکہ کے اخلاقی زوال کی علامت ہیں، ایسی صورتحال میں امریکہ کا صلح کا ثالث بننے کا دعویٰ محض ایک سیاسی فریب ہے۔

امریکہ کے اندر بڑھتی مخالفت

امریکہ کے اندر بھی اس پالیسی کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں، نوجوان نسل، انسانی حقوق کے کارکن اور حتیٰ کہ کانگریس کے بعض اراکین بےقید فوجی امداد کی مخالفت کر رہے ہیں، تازہ سروے کے مطابق، 18 سے 29 سال کی عمر کے امریکیوں کی اکثریت اسرائیل کو دی جانے والی امداد کے خلاف ہے — ایک تبدیلی جو سوشل میڈیا اور غزہ میں ہونے والے مظالم کی تصویروں سے جنم لے چکی ہے۔

یہ رجحان امریکی یہودی برادری میں بھی ابھر رہا ہے، کئی یہودی تنظیمیں جیسے  Jews for Peace  جنگ کے خلاف احتجاجات میں شریک ہو رہی ہیں اور اسرائیل کی فوجی امداد کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

مستقبل کی سمت

2028 میں موجودہ 10 سالہ معاہدے کے خاتمے کے بعد، واشنگٹن–تل‌ابیب تعلقات کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ امداد کو انسانی حقوق کی پاسداری سے مشروط کیا جانا چاہیے، لیکن AIPAC جیسے طاقتور لابی گروپس اور دو جماعتی اتفاقِ رائے تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، اس کے باوجود، بڑھتا ہوا عوامی دباؤ، شفافیت کا مطالبہ اور اخلاقی شعور میں بیداری، ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کا پیش خیمہ بنے۔

نتیجہ

مزید پڑھیں:ٹرمپ کا منصوبہ اور نیتن یاہو کی تقریر؛ قبضے کو مضبوط کرنے اور مزاحمت کو ختم کرنے کی سازش

تمام شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ امریکہ غزہ میں امن‌ساز نہیں بلکہ جنگ‌ساز ہے،یہ ملک اپنے شہریوں کے ٹیکس سے اسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری میں شریک ہے اور اپنی عالمی قیادت کے اخلاقی دعوے کو خود مسمار کر چکا ہے،جب تک یہ روش برقرار رہے، "صلح” کا نعرہ صرف ایک سیاسی پردہ رہے گا — جو جنگی و اقتصادی مفادات کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مشہور خبریں۔

حکومت کا 2002 سے توشہ خانہ تحائف خریدنے والوں کا ریکارڈ ویب سائٹ پر ڈالنے کا فیصلہ

?️ 23 فروری 2023لاہور:(سچ خبریں) وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ میں 1947 سے اب

مقبوضہ کشمیر : میر واعظ عمر فاروق ایک بار پھر گھر میں نظربند ، نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی

?️ 18 اپریل 2025سرینگر: (سچ خبریں) غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں قابض

حکومت نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کا اہم موقع گنوا دیا، بیرسٹر گوہر

?️ 17 فروری 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر

اسرائیل بہت کمزور ہوچکے ہیں اور بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے: صہیونی سکیورٹی عہدہ دار

?️ 9 اگست 2021سچ خبریں:صہیونی حکومت کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ ، جنہوں

ایک ماہ میں امریکی بحریہ کے 3 ملاحوں کی خودکشی

?️ 23 نومبر 2022سچ خبریں:پینٹاگون کے لیے ایک نئے چیلنج میں، ایک ماہ میں امریکی

یمنی جنگ بندی کی صورتحال

?️ 22 اپریل 2022سچ خبریں:تجزیہ کاروں اور باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی اتحاد

عرب ممالک کا سویڈن کے ساتھ سلوک

?️ 1 جولائی 2023سچ خبریں:بین الاقوامی تعلقات کے محقق اور عرب دنیا کی سیاسی معیشت

آصف زرداری سے ایم کیو ایم کے وفد کی ملاقات، سندھ میں بلدیاتی انتخابات پر تبادلہ خیال

?️ 29 نومبر 2022اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان پیپلزپارٹی کی ایم کیو ایم پاکستان کے وفد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے