سچ خبریں: تمام شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صیہونی حکومت نے غزہ میں شدید ترین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے،تاہم امریکی حکومت اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ صیہونی حکومت اپنا دفاع کر رہی ہے۔
غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کا تیسرا مہینہ ایسے حالات میں گذر رہا ہے کہ اس حکومت نے عالمی فوجداری عدالت کے قانون میں بیان کردہ چار جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن میں جنگی جرائم، نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جارحیت کے جرائم شامل ہیں، اس تجزیے میں غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جنگی جرائم کا مختصراً جائزہ لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا غزہ میں جنگی جرائم کا سلسلہ جاری
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے آئین کا آرٹیکل 8 جنگی جرائم کا حوالہ دیتا ہے،اس آرٹیکل میں درجنوں ایسے جرائم کا ذکر کیا گیا جو جنگی جرائم کی مثالیں ہیں، ان میں سے بعض جرائم جو صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ کے عوام کے خلاف کھلے عام اور بار بار کیے گئے ہیں اور اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس حکومت نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
ذیل میں ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
1۔ قتل
صیہونی حکومت غزہ کی حالیہ جنگ میں 18 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکی ہے،غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی حکومت کی جارحیت کے نتیجے میں 7 اکتوبر 11 دسمبر شہید ہونے والوں کی تعداد 18205 ہو گئی ہے،اس دوران 6000 سے زائد افراد لاپتہ ہیں،شہید ہونے والوں میں 70 فیصد بچے اور خواتین ہیں،یونیسیف کے ترجمان نے تاکید کی کہ غزہ میں تقریباً 7800 فلسطینی بچوں کا قتل انسانیت کے ماتھے پر کلنک ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ غزہ کے عوام کو صیہونی حکومت نے جان بوجھ کر نشانہ بنایا اور شہید کیا ہے،اس علاقے کی عوام کو جان بوجھ کر قتل کرنے کے متعلق بہت سے شواہد موجود ہیں جن میں اسپتالوں، کیمپوں، رہائشی مکانات اور اسکولوں کو نشانہ بنانا شامل ہے،یہ جانتے ہوئے کہ ان جگہوں پر عام شہری موجود ہیں، صیہونی حکومت ایک طرف تو شہداء کی تعداد بڑھانے کے لیے ان پر بمباری کرتی ہے، تو دوسری طرف حماس کے خلاف دباؤ بڑھاتی ہے، جو صیہونی قیدیوں کو رہا نہیں کرتی تاکہ اپنی کھوئی ہوئی ڈیٹرنس کو بحال کرسکے، تاہم وہ اب تک ان دونوں مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
2. لوگوں کے جسم یا صحت کو شدید تکلیف یا شدید نقصان پہنچانا
جنگی جرائم کی ایک اور مثال جس کا ذکر آئی سی سی کے آرٹیکل 8 میں کیا گیا ہے لوگوں کے جسم یا صحت کو شدید تکلیف یا شدید چوٹ پہنچانا ہے،صیہونی حکومت اس جرم کا ارتکاب عام شہریوں کو زخمی کرنے، غزہ کا محاصرہ کرنے، وہاں ادویات اور خوراک کے داخلے کو روکنے، اسپتالوں کا محاصرہ کرنے اور مریضوں کو علاج سے روکنے کے ساتھ ساتھ غزہ کے لوگوں کو انخلاء پر مجبور کرنے کی صورت میں کرتی ہے،غزہ کی وزارت صحت کے مطابق صہیونی حملوں کے دوران 49645 افراد زخمی ہوئے۔
3۔ بڑے پیمانے پر املاک کی تباہی اور ضبطی، جو غیر قانونی اور جانبدارانہ طریقے سے کی جاتی ہے اور فوجی ضرورت کی وجہ سے اسے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
4۔ جان بوجھ کر عام شہریوں کو قتل کرنے کی نیت سے حملے، یا ایسے شہریوں کو نشانہ بنانا جو ان تنازعات میں براہ راست ملوث نہیں ہیں؛
5۔ شہری اہداف پر جان بوجھ کر حملے، یعنی ایسے اہداف جن کا کوئی فوجی استعمال نہ ہو۔
6۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انسانی ہمدردی کی خدمات یا امن مشن میں مصروف عملہ، سہولیات، سازوسامان، یونٹس یا گاڑیوں کے خلاف جان بوجھ کر حملے مسلح تصادم کے بین الاقوامی قانون کے تحفظات کے تحت آتے ہیں۔
7۔ جان بوجھ کر اس علم کے ساتھ حملہ کرنا کہ اس طرح کے حملے سے عام شہریوں کو جانی نقصان پہنچے گا یا شہری اہداف کی تباہی ہوگی یا ماحول کو شدید، وسیع اور طویل مدتی نقصان پہنچے گا، جو یقیناً براہ راست اور یقینی فوجی فوائد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
8. شہروں، دیہاتوں، رہائشی علاقوں یا عمارتوں پر بمباری یا حملہ جو فوجی تحفظ کے تحت نہیں ہیں اور انہیں فوجی اہداف نہیں سمجھا جاتا ہے۔
صیہونی حکومت نے غزہ کے عوام کے خلاف پیراگراف 3 سے کر 8 تک ہر ایک کو بارہا اور کھلے عام انجام دیا ہے، درحقیقت غزہ کے خلاف صہیونی جنگی جرائم کی ایک اور مثال رہائشی، صحت، تعلیمی، اقتصادی وغیرہ املاک کی وسیع پیمانے پر تباہی ہے۔
غزہ حکومت کے انفارمیشن آفس نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج اب تک اس پٹی میں فلسطینیوں کے 61 فیصد مکانات کو تباہ کر چکی ہے۔
اس دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ صیہونی غاصبوں نے غزہ کی پٹی پر وحشیانہ حملوں کے دوران 305 ہزار سے زائد رہائشی یونٹس کو تباہ کر دیا ہے،جنگ کے تیسرے مہینے کے آغاز پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں صہیونی اخبار ہارٹیز نے لکھا کہ غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں 61 فیصد ہلاکتیں فلسطینی شہریوں کی ہیں۔” صیہونی اخبار نے اسرائیل کی ایک یونیورسٹی میں سماجیات کے پروفیسر یاگیل لیوی کا ایک تجزیہ شائع کیا جس کے مطابق غزہ میں صیہونی حکومت کی 2012 سے 2022 کے عرصے کے دورانگزشتہ تین جنگوں میں مجموعی تعداد کے مقابلے شہری ہلاکتوں کی شرح اس حکومت کے فضائی حملوں میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً 40 فیصد تھی جبکہ اس سال کے آغاز میں غزہ پر بمباری کی مہم کے دوران شیلڈ اینڈ ایرو نامی آپریشن کے دوران یہ شرح 33 فیصد بتائی گئی تھی،صیہونی حکومت کی غزہ کی فوج اور عام شہریوں کے درمیان تفریق کے حوالے سے مسلسل فضائی بمباری کی بے حسی اس جنگ میں عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنی ہے۔
9. غیر قانونی ملک بدری یا منتقلی یا غیر قانونی قید
10۔ یہ اعلان کرنا کہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
غزہ کے لوگوں کی جبری ہجرت صیہونیوں کے جنگی جرم کے ارتکاب کی ایک اور مثال ہے، بین الاقوامی فوجداری عدالت کے قانون میں، دو شقیں اس مسئلے کا حوالہ دیتی ہیں، یعنی: ملک بدری یا غیر قانونی منتقلی اور یہ اعلان کرنا کہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
جنگ کے پہلے دور کے دوران جو 48 دن تک جاری رہی اور 7 روزہ جنگ بندی پر منتج ہوئی، صیہونی حکومت نے غزہ کے عوام کو بارہا خبردار کیا کہ اگر وہ شمالی غزہ سے نہ نکلے تو انہیں قتل کردیا جائے گا،جنگ کے دوسرے دور میں یہ وارننگ جنوبی غزہ کے لوگوں کو دی گئی،صہیونیوں نے رفح کراسنگ کو دوبارہ کھولنے اور غزہ کے لوگوں کی مصر کی طرف جبری ہجرت کا مطالبہ کیا۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ریلیف اینڈ ایمپلائمنٹ ایجنسی (UNRWA) نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں 10 لاکھ 900 ہزار افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں،یعنی اس علاقے کے باشندوں کا تقریباً 85%۔ اس حوالے سے فلسطین نیشنل انیشی ایٹو کے سکریٹری جنرل مصطفیٰ البرغوثی نے کہا کہ اسرائیل کی مجرمانہ بمباری نے غزہ کے شمال میں بعض خاندانوں کو 6 بار مختلف مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور کیا ہے تاہم غزہ کے عوام نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے،ان تمام مصائب اور صہیونیوں کے منصوبے کے باوجود نسلی تطہیر کے لیے انہیں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنا ناکام ہو گیا کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اگر وہ غزہ سے نکل گئے تو انہیں کبھی واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔
11۔ مذہبی، تعلیمی، فنکارانہ، سائنسی یا خیراتی عمارتوں، تاریخی یادگاروں، ہسپتالوں اور ایسے مقامات پر جان بوجھ کر حملے کرنا جہاں بیمار اور زخمی لوگ جمع ہوتے ہیں، بشرطیکہ یہ مقامات فوجی اہداف نہ ہوں۔
12. بین الاقوامی قانون کے مطابق جنیوا کنونشنز کے مخصوص لوگو کا استعمال کرنے والی عمارتوں، آلات، طبی یونٹوں اور گاڑیوں اور اہلکاروں پر جان بوجھ کر حملے؛
غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی حالیہ جنگ میں اور یکم دسمبر سے شروع ہونے والی جنگ کے دوسرے دور کے آغاز سے قبل غزہ میں کم از کم 255 اسکول اور تقریباً 60 مساجد کو تباہ کیا گیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل Tedros Adhanom Ghebreyesus نے کہا کہ جنگ کے آغاز سے (11 دسمبر تک) صیہونی حکومت کی جانب سے غزہ اور مغربی کنارے میں طبی مراکز پر 449 سے زائد حملے کیے جا چکے ہیں،غزہ کی پٹی کا صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے ، 36 ہسپتالوں میں سے صرف 14 جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ ان مراکز پر بڑے پیمانے پر حملوں کی وجہ سے ہیلتھ ورکرز کے لیے کام کرنا ناممکن ہو گیا ہے،ادھر غزہ کی پٹی میں فلسطینی وزارت صحت نے بھی اعلان کیا ہے کہ 7 اکتوبر کو اس پٹی میں جنگ کے آغاز سے اب تک اسرائیلی قابض فوج کے حملوں میں 296 طبی اہلکار شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں نیز 36 طبی عملے کے اہلکار تاحال لاپتہ ہیں جبکہ الشفا ہسپتال کے جنرل منیجر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ صہیونیوں کی قید میں غیر انسانی حالات میں ہیں،عام مقامات اور عام شہریوں پر بمباری کے نتیجے میں غزہ میں 75 صحافی اور میڈیا کارکن شہید اور 80 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔
13. فوجی حربے کے طور پر شہریوں پر جبری فاقہ کشی مسلط کرنا، ان لوگوں کو ان کی بقا کے لیے ضروری سامان سے محروم کر کے، جیسے کہ جنیوا کنونشنز میں ضروری کارگو کی ترسیل میں جان بوجھ کر رکاوٹیں پیدا کرنا؛
غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کے جنگی جرائم کی ایک اور مثال اس پٹی کے لوگوں کی جبری فاقہ کشی ہے،ایک طرف 2007 سے غزہ قابض قدس حکومت کے ہمہ گیر محاصرے میں ہے جس نے اس علاقے کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے اور دوسری طرف اس حقیقت کے باوجود کہ بین الاقوامی حکام اور اداروں نے جنگ کے نتیجے میں غزہ میں ہونے والی انسانی تباہی پر کئی بار خبردار کیا ہے لیکن صہیونی کسی بھی انسانی امداد کو غزہ بھیجنے سے روکتے ہیں اور مصر کی جانب سے رفح کراسنگ کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ میں صیہونی جنگی جرائم کا منھ بولتا ثبوت
اسی وجہ سے غزہ کے عوام صیہونیوں کی طرف سے روزانہ کی جانے والی بمباری کے علاوہ ہمہ گیر محاصرے کے نتیجے میں فاقہ کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اس صورتحال میں فلسطینی مرکزی ادارہ شماریات کے شعبہ شماریات کے ڈائریکٹر کے مطابق غزہ کی پٹی میں غربت 90 فیصد اور بیروزگاری 65 فیصد تک پہنچ گئی ہے،اس کے علاوہ متعدد شائع شدہ رپورٹس کے مطابق غزہ کے لوگوں کے ایک بڑے حصے کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ہے اور ماؤں کو اپنے بچوں کو زندہ رہنے کے لیے ایک وقت کا کھانا دینا پڑتا ہے۔
نتیجہ
متذکرہ مقدمات کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر مقدمات بھی واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ القدس کی قابض حکومت نے غزہ کے خلاف جنگ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے،تاہم امریکی حکومت اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ صیہونی حکومت اپنا دفاع جائز طریقے سے کر رہی ہے اور جنگ کو روکنے کے لیے سلامتی کونسل میں کسی بھی مجوزہ قرارداد کو ویٹو کر دیتی ہے،دریں اثنا اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے 33 سال بعد اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کی درخواست کی اور غزہ کی صورتحال کو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے قیام کے خلاف خطرہ کی مثال قرار دیا۔